معارف القرآن

معارف و مسائل
صحیح بخاری میں شیبانی سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت زر سے اس آیت کا مطلب پوچھا ’’فَکَانَ قَابَ قَوسَیْنِ…‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہم سے حضرت ابن مسعودؓ نے حدیث بیان کی کہ رسول اقدسؐ نے جبرئیل امینؑ کو اس حالت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن مسعود سے آیت (مَا کَذَبَ الفُؤَادُ…) کی تفسیر میں یہ نقل کیا ہے کہ رسول اقدسؐ نے جبرئیل امینؑ کو دیکھا اس حالت میں کہ وہ رفرف کے لباس میں تھے اور زمین و آسمان کی درمیانی فضاء کو ان کے وجود نے بھر رکھا تھا۔
ابن کثیر کی تحقیق:
یہ سب روایاتِ حدیث ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں نقل کر کے فرمایا ہے کہ سورئہ نجم کی آیات مذکورہ میں رئویت اور قرب سے مراد جبرئیل کی رئویت اور قرب ہے، یہ قول صحابہ کرامؓ میں سے حضرت ام المومنین عائشہؓ اور حضرت ابن مسعودؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت ابوہریرہؓ کا ہے، اسی لئے ابن کثیر نے آیات مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا کہ:
ان آیات میں جس رئویت اور قرب کا ذکر ہے، وہ رئویت و قرب جبرئیل امینؑ کی مراد ہے، جبکہ ان کو رسول اقدسؐ نے پہلی مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا، پھر دوسری مرتبہ شب معراج میں سدرۃ المنتہیٰ کے قریب دیکھا اور یہ پہلی رئویت نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں ہوئی، جبکہ جبرئیل (علیہ السلام) پہلی مرتبہ سورئہ اقراء کی ابتدائی آیتوں کی وحی لے کر آئے، اس کے بعد وحی میں فترت یعنی وقفہ پیش آیا، جس سے رسول اکرمؐ کو سخت غم اور تکلیف تھی، بارہا یہ خیالات دل میں آئے کہ پہاڑ سے گر کر جان دیدیں، مگر جب کبھی ایسی صورت ہوئی تو جبرئیل امین غائبانہ ہوا سے آواز دیتے کہ اے محمد! آپ خدا کے رسول ہیں، برحق ہیں اور میں جبرئیل ہوں۔ ان کی آواز سے آپ کا دل ٹھہر جاتا اور سکون ہو جاتا تھا، جب کبھی ایسا خیال آیا اسی وقت جبرئیل نے اس آواز کے ذریعے تسلی دی، مگر یہ تسلیاں غائبانہ تھیں، یہاں تک کہ ایک روز جبرئیل امین بطحا کے کھلے میدان میں اپنی اصلی صورت میں اس طرح ظاہر ہوئے کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور پورے افق کو گھیر رکھا تھا، پھر جبرئیل امینؑ آپؐ کے قریب آئے اور آپؐ کو وحی الٰہی پہنچائی، اس وقت رسول اکرمؐ پر جبرئیل امینؑ کی عظمت اور خدا کے نزدیک ان کی جلالت قدر کی حقیقت روشن ہوئی۔ (ابن کثیر)
خلاصہ یہ ہے کہ امام ابن کثیرؒ نے خود تفسیر مرفوع اور صحابہ کرامؓ کے اقوال کی بنا پر سورئہ نجم کی آیات مذکورہ کی تفسیر یہی قرار دی ہے کہ اس میں رئویت اور قرب جبرئیل کا مراد ہے اور یہ پہلی رئویت ہے جو اسی عالم میں مکہ مکرمہ کے افق پر ہوئی، بعض روایات میں اس رئویت کی یہ تفصیل آئی ہے کہ جبرئیل امین کو پہلی مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھ کر رسول اکرمؐ پر غشی طاری ہوگئی، تو پھر جبرئیل امینؑ آدمی کی صورت میں آپؐ کے قریب آئے اور بہت قریب آ گئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment