سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ کے آزاد کردہ غلام ثروان کہتے ہیں:
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جب بچے تھے تو ایک بار گھوڑوں کے اصطبل میں داخل ہوئے۔ جیسے ہی وہ داخل ہوئے، ایک گھوڑے نے انہیں لات ماری اور زخمی کر دیا۔ ان کے والد عبد العزیز بن مروان نے ان کا خون صاف کیا اورکہا: اگر تم بنو امیہ کے ’’اشج‘‘ ہو تو پھر تم بہت خوش قسمت ہو۔
عمر بن عبد العزیز بچے تھے تو ایک بار بظاہر بلا سبب ہی رو پڑے۔ ان کی والدہ نے بیٹے کو تسلی دیتے ہوئے کہا: بیٹے! کیوں رو رہے ہو؟ کہنے لگے: امی جان! مجھے موت یاد آگئی تو میں رونے لگا۔ سعادت مند بیٹے کی یہ بات سن کر والدہ بھی رو پڑیں۔
عمر عبد العزیزؒ چھوٹے ہی تھے جب انہوں نے قرآن کریم حفظ کر لیا تھا۔ والد گرامی نے صالح بن کیسانؒ کو ان کا استا ذ مقرر کیا اور مدینہ طیبہ میں ان کے پاس بچے کو چھوڑ دیا تھا۔ ایک بار جب والد صاحب حج کو جا رہے تھے، وہ مدینہ طیبہ سے گزرے اور استاذ گرامی قدر سے پوچھا: سنائیے! میرے بچے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے کسی طالب علم کے بارے میں نہیں بتایا گیا کہ خدا کا نام اس کے دل میں اس قدر راسخ ہے، جس طرح اس بچے کے دل میں ہے۔
ایک دن عمر بن عبد العزیزؒ نے نوجوانی کے ایام میں نماز با جماعت سے غفلت کی۔ استاذ محترم صالح بن کیسانؒ نے سبب دریافت کیا تو کہنے لگے: خادمہ میرے بال سنوار رہی تھی۔ استاذ نے کہا: کیا تم نے نماز پر بالوں کی کنگھی کو ترجیح دی؟ اور ساتھ ہی ان کے والد کو لکھ بھیجا۔ والد نے زبان سے تو کچھ نہ کہا، البتہ اپنے فرزند کی عملی تربیت کا ارادہ کرلیا۔ انہوں نے ایک آدمی بیٹے کی طرف بھیجا، جس نے کوئی بات ان سے نہیں کی۔ بس خاموشی سے ان کے سر کے تمام بال مونڈ دیئے۔ (البدایۃ والنہایۃ)
مشہور اموری خلیفہ سلیمان بن عبد الملک حج کر رہا تھا۔ اس نے اپنے دربان کو بھیجا کہ جائو، کسی معروف عالم کو بلا کر لائو، میں ان سے حج کے بعض مسائل پوچھنا چاہتا ہوں۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ طاؤس بن کیسان یمانیؒ وہاں سے گزرے۔ کہنے لگے: یہ طاؤس ہیں۔ بہت بڑے عالم ہیں، ان سے پوچھ لیجیے۔ دربان نے انہیں پکڑ لیا اورکہا: امیر المؤمنین آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
انہوںنے کہا: مجھے اس سے معاف ہی رکھیں۔ اس نے کہا: نہیں آپ کو لازماً جانا پڑے گا۔ یہ ان کے ساتھ ہو لئے اور جب خلیفہ کے پاس پہنچے تو اس کے اگلا قصہ ہم طاؤسؒ ہی کی زبان سے سنتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
جب میں خلیفہ کے سامنے پہنچا تو میں نے کہا: اس مجلس کے بارے میں کل حق تعالیٰ روز قیامت مجھ سے سوال کرے گا۔ میں نے کہا: اے امیر المومنین! جہنم کے اندر ایک گہرا کنواں ہے۔ ایک پتھر جو اس کے کنارے پر تھا، وہ اس کنویں میں گرا اور 70 برس تک اس میں اترتا چلا گیا، حتیٰ کہ وہ اپنی ٹھہرنے کی جگہ پہنچ گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے جہنم کا وہ حصہ کس کے لیے تیارکر رکھا ہے؟
خلیفہ نے کہا: مجھے تو معلوم نہیں۔ کیا تم بتائو گے کہ اسے کن لوگوں کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ طاؤسؒ کہنے لگے: ہاں میں بتاتا ہوں۔ یہ جہنم ان لوگوں کے لیے ہے، جنہیں خدا نے حکومت عطا فرمائی اور پھر انہوںنے لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے کام لیا۔ اس نصیحت کا خلیفہ کے دل پر گہرا اثر ہو ا اور وہ رونے لگا۔ (حلیۃ الاولیاء)
٭٭٭٭٭