سرفروش

عباس ثاقب

میں نے ابھی کھانا ختم ہی کیا تھا کہ مجھے کوئی اپنی طرف آتا نظر آیا۔ میں نے چونک کر دیکھا۔ اس کے ساتھ ہی میں حیرت سے منجمد ہوکر رہ گیا۔ یہ وہی خاتون تھیں، جنہیں میں لنگر خانے میں اپنی طرف متوجہ دیکھ چکا تھا۔ اس وقت پچپن، ساٹھ برس کی ایک اور خاتون ان کے ہمراہ تھیں۔ مجھے اٹھتا دیکھ کر نوجوان خاتون نے اشارے سے مجھے بیٹھے رہنے کو کہا اور وہ دونوں میرے پاس ہی بیٹھ گئیں۔ میں اس دوران چوکنا نظروں سے آس پاس کا جائزہ لے چکا تھا۔ بظاہر تشویش کی کوئی بات دکھائی نہ دیں۔
’’السلام علیکم! میں آمنہ بانو ہوں، اختر بھیا نے بھیجا ہے‘‘۔ اس کی آواز بھی اس کی شخصیت کی طرح دل آویز تھی۔ میں نے اطمینان کی سانس لی۔ اس نے بات آگے بڑھائی ’’پریشان نہ ہوں، ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔
اس کی بات سن کر بے ساختہ میں نے اطمینان کی سانس لی۔ بلاشبہ نگران نظروں سے بچ کر مجھ سے رابطے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا تھا۔ میں نے جواباً کہا ’’اللہ کا شکر ہے۔ میں واقعی کافی مضطرب ہوں۔ اختر خاں صاحب نے جو کچھ بتایا، اس کی روشنی میں مجھے خدشہ ہونے لگا ہے کہ کہیں میرے گرد گھیرا نہ تنگ ہو رہا ہو‘‘۔
میری بات سن کر آمنہ کے چہرے پر ایک شوخ مسکراہٹ ابھری ’’ارے اختربھیا نے تو آپ کو اچھا خاصا تیس مار خاں بتایا ہے… لیکن آپ تو اچھے خاصے ڈرے ہوئے لگ رہے ہیں‘‘۔
میں نے بے ساختہ جھنجلاہٹ کے ساتھ کہا ’’یہ ڈر نہیں، بلکہ احتیاط ہے۔ پتا نہیں آپ کو معاملات کی نزاکت کا کس حد تک علم ہے۔ مجھے مرنے کا خوف نہیں ہے، لیکن میں ان لوگوں کے ہتھے چڑھ کر اپنے وطن اور اب اپنے سفارت خانے والوں کے لیے مشکلات کا باعث نہیں بننا چاہتا‘‘۔
میری تلخ بات سن کر بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ برقرار رہی ’’ارے میں تو مذاق کر رہی تھی۔ دراصل اختر بھیا نے مجھے آپ کی عمر نہیں بتائی، بس حلیے سے آگاہ کیا ہے۔ لہٰذا میں کسی خرانٹ سے خفیہ ایجنٹ کا تصور ذہن میں لے کر یہاں آئی ہوں۔ لیکن آپ تو…‘‘۔ اس نے شرارتی لہجے میں بات ادھوری چھوڑ دی ۔ میں نے اس سے اپنی خفگی برقرار رکھنا چاہی، لیکن ناکام رہا۔
میرے تاثرات معمول پر آتے دیکھ کراس نے سنجیدہ ہوتے ہوئے بات آگے بڑھا ئی ’’اختر بھیا نے آپ کی بحفاظت روانگی کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستانی محکمہ خفیہ اور پولیس والے ایک تنہا نوجوان کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ آپ کو شک بھری نظروں سے بچاکر سفرکے قابل بنانے کے لیے اختر بھائی نے مجھے آپ کی اہلیہ کی حیثیت سے آپ کے ساتھ بمبئی جانے کی ہدایت کی ہے۔ خالہ کریمن بھی آپ کی والدہ اور میری ساس کی حیثیت سے ہمارے ساتھ چلیں گی‘‘۔
اس کی بات سن کر میرے دل میں واقعی اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ واقعی اس سے زیادہ مناسب بندوبست تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ میری ذہنی کیفیت میں یہ خوش گوار تبدیلی اس ذہین لڑکی سے پوشیدہ نہ رہی ’’اللہ نے بیٹھے بٹھائے، بغیر ایک دھیلا خرچ کیے آپ کو اچھی خاصی حسین بیوی عطا کر دی ہے، جو ان شاء اللہ آپ کو خطرات سے بچا کر منزل پر پہنچادے گی۔ آپ چاہیں تو بے دھڑک مسکرا سکتے ہیں‘‘۔
وہ ذہین ہونے کے ساتھ بلا کی شوخ اور تیز طرار بھی تھی۔ میں نے اپنی خفت چھپاتے ہوئے کہا ’’آپ بھی دل چاہیں تو اپنے نصیب کو رو سکتی ہیں، کیونکہ آپ کی سوتن کراچی میں میرا بے چینی سے انتظار کر رہی ہے‘‘۔
لیکن میری چھوڑی ہوئی یہ ہوائی آمنہ پر کچھ زیادہ اثر نہ کر سکی ’’ مجھے اس بے چاری سے ہمدردی ہے۔ کیونکہ اس کے فرضی شوہر کو ڈھنگ سے جھوٹ بولنا بھی نہیں آتا۔ بہرحال آپ چاہیں تو اپنے حلیے میں کچھ تبدیلی کرلیں۔ میں کریمن خالہ کے ساتھ کل سہ پہر مع سامان سفر یہاں آؤں گی۔ آپ تیار رہنا۔ ہماری فیملی کی بمبئی روانگی کے لیے پنجاب میل کے ٹکٹ خریدے جا چکے ہیں‘‘۔
تھوڑی بہت مزید گفتگو کے بعد آمنہ اپنی ’’ساس‘‘ سمیت وہاں سے رخصت ہو گئی۔ ایک بے چینی اور تشویش سے بھرپور گزشتہ رات کے برعکس اب میں ایک عجیب سرور کی کیفیت سے گزر رہا تھا۔ آمنہ کی شخصیت نے میرے دل پر عجیب سحر انگیز اثرات مرتب کیے تھے۔ میں بار بار اپنے ذہن کو کل کے سفر اور آئندہ درپیش حالات کی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی مسکراہٹ کی طرف دھیان بھٹک جاتا تھا۔
اسی کیف کے عالم میں شام ہوئی اور پھر وہ رات میں ڈھل گئی۔ میں نیند میں بھی عجیب سہانے سپنوں میں کھویا رہا اور صبح ہوتے ہی شام کا بے قراری سے انتظار کرنے لگا۔ اس دوران میں نے ایک مسلمان نائی کی مدد سے خط لگواکر اپنی بڑھی ہوئی شیو کو داڑھی کی شکل دے دی اور مونچھیں صاف کروا دیں۔ اب میں خاصی حد تک کسی مسجد کا نوجوان امام دکھائی دینے لگا تھا۔ البتہ میں نے اپنی بڑھی ہوئی زلفیں کم کروانے کی کوشش نہیں کی۔ سہ پہر تین بجے کے قریب آمنہ اور کریمن خالہ مع سامان مزار پر پہنچ گئیں۔ لگ بھگ دو گھنٹے بعد ہم تینوں پنجاب میل کی سیکنڈ کلاس کی ایک بوگی میں ممبئی کی طرف رواں دواں تھے۔
حسبِ توقع دلّی کے ریلوے اسٹیشن پر کسی نے ہم سے باز پرس نہیں کی۔ تاہم مجھے فرید آباد کا ریلوے اسٹیشن گزرنے کے بعد کہیں خطرے سے باہر ہونے کا اطمینان ہوا۔ اس دوران میں آمنہ مسلسل میری کیفیت کا جائزہ لیتی رہی تھی اور اس کی طرف سے احتیاط کے باوجود اس کے ہونٹوں پر وقتاً فوقتاً جھلکنے والی مسکراہٹ میری نظروں سے پوشیدہ نہیں تھی۔ ایسے ہی ایک موقع پر میں نے کریمن خالہ کو مخاطب کیا ’’اماں لگتا ہے اپنی بہو پر آپ کا بالکل رعب نہیں ہے، جب دیکھو دانت نکالتی نظر آتی ہے‘‘۔
اماں کے جواب دینے سے پہلے تیز طرار بہو خود بول پڑی ’’اصل رعب تو خصم کا ہونا چاہیے، لیکن جناب کے بلّی مارنے سے پہلے وہ بے چاری میرے ہاتھوں ہلاک ہو گئی تھی، کہ میرے ہوتے کسی صنف نازک کی مخلوق نے آپ کی خلوت میں داخل ہونے کی جرأت کیسے کی‘‘۔
بدقسمتی سے میں فوری طور پر کوئی منہ توڑ جواب تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ میری خفت محسوس کرتے ہوئے کریمن خالہ میری مدد کو آئیں ’’بیٹا، میری ہی مت ماری گئی تھی کہ اس قینچی مارکہ زبان والی لڑکی کو تمہارے متھے مار دیا۔ لوگوں نے تو سمجھایا تھا، لیکن بھانجی کی محبت میں اندھی ہوگئی تھی‘‘۔
لیکن دفاعی پوزیشن پر جانا شاید آمنہ کی فطرت میں ہی نہیں تھا۔ اس نے جھٹ جوابی کارروائی کی ’’یہ تو آپ نے سچ کہا خالہ جی۔ مت یعنی عقل، شعور نام کی کوئی چیز آپ کے گھر میں کبھی رہی بھی ہوگی تو میری آمد سے پہلے ہی رخصت ہوگئی تھی۔ ورنہ آپ کے صاحب زادے کوئی اچھا سا روزگار تلاش کر کے عزت کی زندگی گزارنے کے بجائے درگاہوں کے لنگروں پر نہ پل رہے ہوتے۔ دیکھ لیں۔ اب ممبئی جاکر بھی یہ بابا حاجی علیؒ کی درگاہ پر ڈیرے جمائے نظر آئیں گے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment