لاہور کی مویشی مندیوں میں قیمتیں آسمان کو پہنچ گئیں

امت رپورٹ
لاہور کی مویشی منڈیوں میں بھی لاکھوں جانور پہنچ گئے ہیں، جن کی قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں۔ ڈھائی ڈھائی من تک کے انتہائی اہتمام سے پالے گئے بکروں کے علاوہ چالیس سے پچاس من تک کے خوب صورت اور توانا بیل بھی دستیاب ہیں۔ ’’شیر لاہور‘‘ اور ’’ڈھول بادشاہ‘‘ جیسے ناموں والے بیل شہریوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ آج یوم آزادی کے موقع پر مویشی منڈیوں کی طرف شہریوں کا رش زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کی طرح پالے گئے ان خوبصورت جانوروں کو کئی کئی سال تک خشک میوہ جات، مکھن، دیسی گھی کھلا کر اور دودھ پلا کر پالا گیا ہے۔ جس محنت اور محبت سے ان جانوروں کو پالا گیا ہے، اسی حساب سے قیمت بھی لیں گے۔ ’’شیر لاہور‘‘ قرار دیئے جانے والے بیل کی ابتدائی طور پر 26 لاکھ روپے قیمت لگ گئی ہے، مگر بیوپاری اس قیمت پر فروخت کرنے کو تیار نہیں۔ منڈی میں بیلوں کی فروخت اور نگرانی پر مامور افراد کے بقول ابھی بہت دن پڑے ہیں۔ جانور اپنی پسند کی قیمت پر ہی فروخت کریں گے۔
لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن نے روایتی طور پر صوبائی دارالحکومت کے داخلی راستوں پر مویشی منڈیاں وسیع و عریض میدانوں میں قائم کی ہیں۔ ان منڈیوں کے علاوہ بھی پچھلے سال کے برعکس جگہ جگہ آبادیوں کے اندر کھلے احاطوں پر اور پلاٹوں میں چھوٹے بیوپاریوں نے منڈیاں سجالی ہیں۔ تاہم اصل رش ملتان روڈ پر شاہ پور کانجراں، واہگہ ٹائون پر لکھو ڈہر، جی ٹی روڈ پر مناواں، سگیاں پل سے متصل ہڈیارہ ڈرینج اور نشاط ٹیکسٹائل کے قریب قائم کی گئی مویشی منڈیوں میں ہیں۔ شاہ کانجراں سمیت کئی جگہوں پر خوبصورت، دراز قامت اور انتہائی پلے ہوئے بیلوں کے علاوہ قربانی کے لیے اونٹوں کی فروخت کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ شہریوں کی بکروں کی خرید میں زیادہ دلچسپی ہے۔ لیکن بکروں کے ریٹ بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہونے کے سبب مجبوراً گائے کی قربانی میں حصہ ڈالنے کے لیے پارٹنر تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ شیر پنجاب اور فخر پنجاب ایسے نام روایتی طور پر سیاستدانوں کے ناموں کے ساتھ ہی نہیں لیے جاتے۔ شوق سے پالے ہوئے بیلوں اور بکروں کے لیے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی لاہور کی منڈیوں میں شیر لاہور اور ڈھول بادشاہ ٹائپ کے ناموں کے جانور تو پہنچ گئے ہیں، لیکن ابھی شیر پنجاب نامی شیر کی آمد کا انتظار ہے۔ شیر پنجاب کا نام مل جانے کی وجہ سے ہر بیوپاری اپنے اپنے بیلوں کو شیر لاہور کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شاہ پور کانجراں میں ایسے ہی ایک بیوپاری ظفر نے اپنے بیل کو شیر پنجاب قرار دیتے ہوئے اس کی قیمت دس لاکھ بتائی، جبکہ اس کا وزن 38 من ہے۔ ماضی کے برسوں میں نہ صرف شیر پنجاب کے بیل مویشی منڈی میں فروخت کے لیے آتے رہے ہیں، بلکہ شیر پنجاب نام کے بیل روایتی میلہ مویشیاں میں بھی فروخت کے لیے پیش کئے جاتے رہے ہیں۔
لاہور کے داخلی راستوں سے متصل 10 اگست سے قائم کی گئی مویشی منڈیوں میں ایک طرف جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں تو دوسری جانب انتظامات بھی انتہائی ناقص ہیں۔ بیوپاریوں کو وعدے کے مطابق بجلی، پانی اور خیموں کی مفت سہولت فراہم کرنے کے عمل میں بھی کوتاہی برتی گئی۔ جگہ جگہ بیوپاری شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان سے خیمے لگا کر دینے اور بجلی فراہم کرنے کے پیسے لیے جارہے ہیں، جبکہ پانی کی دستیابی خود انسانوں کے لیے بھی ممکن نہیں بنائی گئی ہے۔ اسی طرح چارہ فروخت کرنے والے بھی منہ مانگی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ نیز مویشی منڈیوں میں صفائی ستھرائی کا اہتمام بھی اچھا نہیں ہے۔ بیوپاریوں کو پریشانی ہے کہ اگر کسی دن زیادہ بارش ہو گئی تو ان کے جانور خصوصاً بکریوں، دنبوں اور گایوں اور بیلوں کے لیے خطرنات صورتحال بن سکتی ہے۔ بیوپاریوں کو یہ بھی مسئلہ درپیش ہے کہ سخت گرمی میں انہیں اپنے جانوروں کو دھوپ اور سخت دھوپ میں رکھنا پڑ رہا ہے۔ ان بیوپاریوں کے مطابق وہ اپنے جانوروں کو کئی کئی سال کی محنت اور کوشش کے علاوہ دودھ، مکھن سے پالتے پوستے رہے ہیں۔ لیکن لاہور کی مویشی منڈیوں میں پانی بھی مشکل سے مل رہا ہے۔ اگر منڈیوں کے حالات بہتر ہو گئے تو آنے والے دنوں میں بہت اعلیٰ نسل کے قربانی کے جانوروں کی بھرمار ہو جائے گی۔
اس وقت شاہ پور کانجراں میں جس شیر پنجاب کی دریافت ہوئی ہے، وہ خود بے سر و سامانی کا شکار ہے کہ اس کے مالک ظفر نامی بیوپاری کے بقول اسے سایہ بھی نہیں مل سکا ہے۔ یوں ناز و نعم میں پلا ہوا یہ شیر پنجاب لاہور میں عملاً اذیت کے دن کاٹ رہا ہے۔ اب تک اس کی سات لاکھ روپے قیمت لگ چکی ہے۔ لیکن بیوپاری دس سے پندرہ لاکھ روپے سے کم دینے پر آمادہ نہیں۔ اس کے خیال میں اس کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب شہری بیوپاریوں کی طرف سے بتائی گئی اونچی قیمتوں سے پریشان ہیں۔ جس سائز اور معیار کے بکرے گزشتہ سال 25 سے 30 ہزار میں دستیاب تھے، اب ان کی قیمتیں تقریباً دگنی 45 سے 50 ہزار روپے تک مانگی جارہی ہیں۔ جبکہ اچھی صحت اور معقول بکرے کی یہ کم سے کم قیمت ہے۔ اچھے قد بت کے بکرے ایک سے ڈیڑھ لاکھ میں بتائے جارہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں عام گائے کی قیمت 60 سے 70 ہزار روپے ہے، لیکن پلی ہوئی گائے اور بیل لاکھوں روپے میں فروخت کے لیے پیش کئے گئے ہیں۔ توقع ہے کہ یوم آزادی کے بعد مویشی منڈیوں میں رش آنے والے بہت بڑھ جائے گا اور جانوروں کی قیمتیں بھی عروج پر ہوں گی۔ ذرائع کے مطابق کارپوریشن کے متعلقہ حکام و عملہ اب تک عملاً مویشی منڈیوں سے بے تعلق نظر آرہا ہے۔ اسی وجہ سے بیوپاریوں کو شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ ان سے خیمے کے لیے ایک ہزار اور بجلی کے لیے پانچ ہزار روپے چھوٹے اہلکار لے رہے ہیں۔ بیوپاری اپنے جانوروں کو گرمی اور بیماری سے بچانے کے لیے اور رات کے وقت چوری سے بچانے کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment