شاہد الرحمان
ریڈیو انتہائی شاندار تاریخ کا حامل ہے۔ اس سنہری تاریخ کا آغاز 1930 کے عشرے کے آخری دور سے ہوتا ہے جب جنوبی ایشیا کے اس خطے کے لوگوں نے پہلی بار ریڈیو سے آواز سنی۔ اس چھوٹے سے جاودئی ڈبہ نے جسے ہم ریڈیو کہتے ہیں۔ اس وقت سنہری تاریخ رقم کی جب 13اور 14اگست 1947 کی درمیانی شب یہ اعلان نشر ہوا۔’’ السلام علیکم! پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس‘ ہم لاہور سے بول رہے ہیں۔ تیرہ اور چودہ اگست 1947کی درمیانی رات‘ بارہ بجے ہیں۔ طلوع صبح آزادی۔‘‘ مصطفی علی ہمدانی کے ان الفاظ نے پاکستان کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی ملک کے پہلے نشریاتی ادارے کا قیام عمل میں آ گیا جسے آگے چل کر ریڈیو پاکستان کا نام دیا گیا۔ ریڈیوپاکستان نے اپنے نشریاتی سفر کا آغاز صرف تین میڈیم ویوز ٹرانسمیٹرز کے ساتھ کیا جو لاہور‘ پشاور اور ڈھاکہ میں نصب تھے۔ نشریاتی سفر کے آغاز کے وقت عملے کی تعداد انتہائی کم اور آلات انتہائی پرانے تھے۔ ریڈیو پاکستان کے پروگراموں کی سماعت میں اس وقت وسعت پیدا ہوئی جب 1948میں کراچی اور راولپنڈی میں نئے ریڈیو اسٹیشنوں کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد کراچی میں 1950 میں نئے براڈ کاسٹنگ ہاؤس کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد 1951میں حیدرآباد اور 1956 میں کوئٹہ میں نئے ریڈیو اسٹیشن قائم کئے گئے۔ ان ریڈیو اسٹیشنوں کے قیام نے ریڈیو پاکستان کو ایک انتہائی موثر ذریعہ ابلاغ بنا دیا۔ پاکستان میں نشریات کی دنیا میں طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان کی ہی حکمرانی رہی۔ ماضی میں ریڈیو کا دوسرا نام ریڈیو پاکستان ہی تھا کیونکہ یہ صرف ریڈیو پاکستان ہی تھا جو ملک بھر میں نشریاتی خدمات انجام دیتا تھا۔ ریڈیو حقیقی معنوں میں تقریباً ہر خاندان کا فرد ہوا کرتا تھا۔ پورا خاندان اس پر اپنے پسندیدہ پروگرام سنا کرتا تھا۔ جس میں ڈرامہ‘ موسیقی اور ریڈیو شوز شامل ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب ریڈیو پر پروگرام کرنے والے فنکار و صداکار سامعین میں بہت مقبول ہوا کرتے تھے۔ اور ہر ریڈیو اسٹیشن کو روزانہ بوریوں میں سامعین کے خطوط موصول ہوا کرتے تھے۔ ریڈیو ایک استاد یا رہنما کی طرح لوگوں کی تربیت کیا کرتا تھا اور سامعین ریڈیو کے ذریعے دی جانے والی تربیت پر ایک طالب علم کی طرح عمل کیا کرتے تھے۔ ریڈیو نے عوام کی ذہنی نشوونما اور اخلاقی تربیت میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریڈیو تفریح کا بھی بہت بڑا ذریعہ تھا۔ کرکٹ میچ پر بال ٹو بال براہ راست کمنٹری سامعین میں انتہائی مقبول تھی۔ یہ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ کھیلنے کا دور تھا جو کراچی‘ لاہور اور ڈھاکہ میں کھیلے جاتے تھے اور ان میچوں کے باعث سب کچھ جام ہوجاتا تھا۔ کیونکہ اسٹیڈیم کرکٹ سے محبت کرنے والے شائقین سے پانچ روز تک بھرا رہتا تھا۔ وہ سامعین جو 1950اور 1960کے عشروں میں کرکٹ کمنٹریز سنا کرتے تھے اب بھی عمر قریشی اور جمشید مارکر کی کمنٹریز کو یاد کرتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ انگریز ی کمنٹری سامعین کو کھیل میں ہونے والی پیش رفت کو سمجھنے میں مدد دیتی تھی۔ ٹی وی اور فلم کے اکثر مقبول فنکاروں نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو سے کیا۔ انہیں ملک میں ایسا کوئی ادارہ یا اکیڈمی میسر نہ تھی جہاں سے وہ فنی تربیت حاصل کر سکتے۔ لہٰذا انہیں ریڈیو پر ہی انحصار کرنا پڑا اور اس طرح جو کردار وہ ریڈیو ڈراموں میں ادا کرتے گئے وہی ان کی تربیت کا ذریعہ بنے۔ مقبول فلم اداکار محمد علی‘ ندیم اور مصطفی قریشی ایک دور میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ وابستہ رہے۔ پاکستان ٹیلی ویڑن کے ابتدائی دس سالوں کے دوران اپنے فن کے جوہر دکھانے والے اداکار بھی درحقیقت ریڈیو پاکستان کے تربیت یافتہ تھے۔ ’’تلقین شاہ‘‘ 1960کے عشرے میں نشر ہونے والا ان کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ جس میں صرف دو کردار ہوا کرتے تھے۔ جن میں اشفاق احمد تلقین شاہ کا کردار ادا کیا کرتے تھے اور ہدایت اللہان کے نوکر کا کردار تھے۔ یہ پروگرام ایشیاء میں سب سے طویل عرصے تک نشر ہونے والے پروگراموں میں پہلے نمبر پر اور دنیا میں طویل عرصے تک نشر ہونے والا دوسرے نمبر پر آنے والا ریڈیوفیچر تھا۔ موسیقی کے انتہائی قابل پروڈیوسرز اور موسیقاروں نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے اسٹوڈیوز کو موسیقی کے سکول میں تبدیل کر دیا اور پاکستان کے بڑے گلوکار الن فقیر‘ استاد محمد جمن‘ عابدہ پروین اور حالیہ دنوں میں صنم ماروری نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان کے اسی اسٹیشن سے کیا۔ راجستھان کے علاقے بیکانیز میں بنجاروں کے خاندان میں پیدا ہونے والی ایک اور خوبصورت آواز جسے ریڈیو پاکستان کے ایک پروڈیوسر نے لال شہباز قلندر کے مزار پر گاتے سنا اور اسے ریڈیو پاکستان پر گانے کی دعوت دی اور اس کی آواز میں ’’لال میری پت رکھیو‘‘ ریکارڈ کیا اس گانے نے راتوں رات پورے ملک میں دھوم مچا دی اس طرح ریشماں‘ ملک کی مشہور و معروف لوک گلوکارہ بن گئیں۔ یہ روایت جاری ہے اور آج بھی ریڈیو پاکستان اچھے مصنفین‘ شاعروں‘ نیوز ریڈرز‘ موسیقاروں‘ گلوکاروں اور ڈرامہ فنکاروں کی تلاش میں ہے۔ریڈیو پاکستان کی عمر پاکستان کی عمر کے برابر ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭