محمد قیصر چوہان
چودہاگست 1947ء کے روز سورج گرہن تو نہیں تھا کہ یوں معلوم ہورہا تھا جیسے برصغیر کی تاریخ کے بدترین مظالم کو کسی نے سیاہی کی صورت سورج کے رخساروں پر مل دیا ہو، جبھی تو اس کی آب و تاب بجھی بجھی معلوم ہورہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ سورج نہیں بلکہ کسی ایسی یرقان زدہ مریض کا چہرہ ہو جسے دوا سے افاقہ نصیب ہو اور نہ دعا سے سکون میسر۔ آسمان بھی بے رونق تھا کسی بیوہ کے چہرے کی طرح اس کے نصیب اس کے سامنے جل گئے ہوں فضا میں بادل تھے لیکن وہ بادل نہیں جن کو دیکھ کر محبت بھرا راگ ملہار یاد آئے یا پھر جن کے آنے سے باغوں میں جھولے پڑ جاتے ہیں بلکہ یہ تو ایسا دھواں معلوم ہو رہے تھے جو کسی جوان کی لاش سے اٹھتا ہو اور فضا میں ٹھہر سا گیا ہو۔ ہوا میں لاشوں سے اٹھتا تعفن سانس روکنے کا سبب بن رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے آکسیجن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور امونیا گیس کی آمیزش کر دی ہو۔ جن شہروں کی خاموشیاں بھی ماروا کے راگ میں گنگناتی تھیں وہاں چیخوں کے سوا کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔ کچی مٹی سے لیپی دیواروں پر لہو کے دھبے تھے۔ اب کے بار کھیتوں میں اناج اگنے کے بجائے لاشیں کھیت ہوئی پڑی تھیں۔ حویلیوں کی دیواروں پر کاگا کائیں کائیں کرنا بھول گیا تھا، راستے انجان ہو گئے تھے، منزل قدموں میں ہونے کے باوجود گم تھی۔ امرتسر سے لاہور آنے والا ہر راستہ لہو لہو تھا۔ جن راہوں پر دیے جلتے تھے آج وہ راستے جل رہے تھے۔ پاکستان کا اعلان بہت بڑی کامیابی اور فتح ضرور تھی لیکن اس نصرت کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرنے والوں کو جس آگ کے سمندر سے گزرنا پڑا تھا وہ بھی کچھ کم امتحان نہ تھا۔ ہندو کہتے تھے:
’’اگر ہماری تلوار روزانہ ایک ’’مسلے‘‘ کا لہو نہ پی لے اس زنگ لگ جاتا ہے۔ مر جاتی ہے۔‘‘ یہ لیکن قیام پاکستان کے وقت شاید ہی کسی ہندو کی تلوار ’’مری‘‘ ہو یا پھر شاید ہی کسی سکھ کی کرپان ہو جو خون سے دھوئی نہ گئی ہو۔ کرپانیں اور تلواریں دھونے کے لیے نوجوانوں کا خون شرط نہ تھا بلکہ یہ پیاس بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے لہو سے بھی بجھائی جاتی رہی۔
مائی صغریٰ واہگہ کے قریب ہی ایک گائوں میں رہتی ہے، گائوں والے اسے ’’اماں‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ ہندوستان میں اس کے بھائی کی قبر ہے، باپ دفن ہے اور ماں بھی۔ ماں کی تو شاید قبر نہ ہو۔ آج مائی صغریٰ ریلوے اسٹیشن کے اردگرد ٹافیاں بیچ کر گزارہ کرت ہے، کوئی بیٹا نہیں ہاں ایک بیٹی ہے جس کی حیدرآباد میں شادی کر دی گئی۔ اور اب وہ اپنے گھر بچوں کے ساتھ خوش ہے کہ مائی صغریٰ آزاد فضا میں لی ہوئی سانسوں کی قیمت ادا کررہی ہے، سانس سانس آہ کے باوجود خوش ہے، بے شک سام کو روٹی مشکل ہی سے میسر آئے گی لیکن پھر بھی اسے یہ ڈر نہیں کہ آج ستر اسی برس عمر ہونے کے باوجود کوئی ہندو یا سکھڑا ’’ثواب‘‘ کمانے اس کی جھونپڑی میں آئے گا۔
مائی صغریٰ نے بتایا:
’’تقسیم سے قبل میں دہلی ے قریب گائوں میں رہتی تھی، میرا باپ امام مسجد اور بھائی کتابوں کی دکان پر ملازم تھا۔ ہمارے گائوں میں زیادہ لوگ ہندو تھے۔ مسلم بہت کم تھے جبکہ سکھوں کی تعداد بھی کاف تھی فسادات شروع ہوئے تو ہمارے ماموں اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ ہمارے ہاں آگئے۔ ابا کی گائوں میں خوب عزت تھی۔ ہندو بھی احترام کرتے تھے اور سکھ انہیں ’’بھاء جی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ہمیں بھی اس بھائی چارے پر مان تھا۔ ماں کو گائوں والے سب چھوٹے بڑے ’’بہن جی‘‘ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ ایک شام ماموں نے ابا سے کہا:
’’حالات بڑے خراب ہیں ہمیں جلد از جلد دہلی چھوڑ دینا چاہئے۔‘‘ ابا بولے کیسی بات کرتے ہو؟ ہمارے گائوں والے ویسے نہیں جیسے دوسرے ہیں۔ ہم یہیں رہیں گے، ہم چلے گئے تو بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کون کرے گا؟‘‘ ماموں نے سمجھانے کے انداز میں کہا:
’’اگر ہم یہاں رہے تو بھی بزرگوں کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے کے لیے کوئی نہیں بچے گا۔‘‘ لیکن ابا نہ مانے۔ پھر اگلے ہی دن کسی نے گائوں کے پنچ گوپی رام کو اطلاع دی کہ ’’مسلوں‘‘ نے سات ہندو عورتوں کی عزت پامال کرنے کے بعد انہیں قتل کر دیا ہے۔ اسی رات ہندو اکٹھے ہوئے، مگر کسی طرح سے ابا کو پتہ چل گیا، ماموں نے خوب زور لگایا کہ ابا دہلی چھوڑ دیں، مگر ابا نہ مانے۔ ان کے ذہن پر تو اپنے بڑوں کی قبریں سوار تھیں۔ زندوں کی کچھ فکر نہ تھی۔ گائوں کے مسلمانوں نے رات کے اندھیرے میں نقل مکانی شروع کر دی۔ میرے بھائی نے بھی دکان پر جانا ترک کر دیا۔ پھر خبر ملی کہ انور بھائی جو ہمارے ہمسائے تھے ان کے پورے خاندان کو قتل کر دیا گیا۔ اس رات پہلی بار میں نے ابا کے ارادوں کو کمزور ہوتے دیکھا، انہوں نے میری طرف دیکھا، پھر چھوٹی بہن پر نظر ڈالی اور آخر میں بھائی جو ستائیس برس کا جوان تھا کے سراپے کا بھرپور جائزہ لیا اور بولے:
’’صغریٰ کی ماں زیور سنبھال، ہم آج دہلی چھوڑ دیں گے۔‘‘ ابا کا فیصلہ اچانک نہیں تھا اس کے پیچھے جانے کتنے دنوں کا سوچ و بچار تھا۔ ہم لوگ قیمتی سامان لے کر گھر سے نکلنا ہی چاہتے تھے کہ کسی نے ہندوئوں کو خبر کر دی۔ گھر کا دیا تو بجھنے کا تھا لیکن چاندنی نے صحن کو دودھ میں نہلا رکھا تھا۔ سامان باندھنے پر خوش تو کوئی بھی نہ تھا لیکن ہجرت مجبوری تھی۔ بھائی کے ہاتھ میں کتابیں تھیں اور سر پر صندوق۔ چھوٹی بہن نے ایک ہاتھ میں گڑیا دوسرے میں طوطے کا پنجرہ تھام رکھا تھا۔ ماموں کی بیٹیوں نے سفید برقعے پہن رکھے تھے۔ ابا کے ہاتھ میں قرآن تھا۔ وہ بولے چلو۔اسی اثنا میں تلواریں اٹھائے ہندو دروازہ توڑ کر گھر میں گھس آئے اور دھمکیاں دینےکے بعد ایک نے میرے بوڑھے باپ کو گریبان سے پکڑا اور منہ پر تھپڑ مارا، باریش چہرے پر تھپڑ پر بھائی کے منہ سے چیخ نکلی تو دوسرے نے اس کے پیٹ میں خنجر گھونپ دیا، اس سے پہلے ہم خوف سے کانپ رہی تھیں لیکن اب یہ خوف درد بن گیا۔ ایک ہاتھ ٹوپی والے برقعوں کی طرف بڑھا… برقعے تار تار ہو گئے چیخوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی ’’جے کالی تیرے پوتوں کی‘‘ کا نعرہ گونجتا۔ مجھے صرف یہی یاد ہے کہ مجھے کچھ لوگ مسجد میں لے گئے جہاں قرآن پاک کے نسخے بکھرے ہوئے تھے۔ مجھے انہیں پر دھکا دے کر گرایا… میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا… پھر جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک بیل گاڑی میں تھی۔ میرے حواس قائم نہ تھے۔ جانے کتنے دن ایسے ہی رہی۔ معلوم ہوا سب مارے گئے تھے۔ بابا کی داڑھی نوچی گئی، ماموں کی بیٹیوں کو پامالی کے بعد قتل کر دیا گیا، میری ماں کو بھی نہ چھوڑا، سب مارے گئے مگر مجھے بھی اپنی طرف سے وہ قتل کر گئے تھے ہمارے ہمسائے کے لڑکے رشید نے جو کسی طرح زندہ بچ گیا تھا مجھے سرحد پار لے آیا۔‘‘
میں نے مائی صغریٰ سے پوچھا:
’’کیا آپ نے رشید سے شادی کر لی تھی؟‘‘
’’نہیں وہ پہلے سے شادی شدہ تھا۔‘‘
’’تو پھر آپ کی بیٹی کا باپ؟‘‘
’’وہ غدر میں مارا گیا۔‘‘
مائی صغریٰ کی جھریوں کو اشکوں کو بہتی ندی سیراب کررہی تھی، اسٹیشن کے ٹوٹے ہوئے بینچ پر بیٹھے ہم دونوں اداس تھے۔ مجھے مائی صغریٰ کے قد کے سامنے بڑے بڑے مجاہدوں کی قربانیاں ہیچ دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ بہت عظیم تھی۔ اتنے میں اسٹیشن پر گاڑی رکی، مائی صغریٰ نے اپنا پوٹلا اٹھایا اور چل پڑی۔ ٹرین کی کھڑکی کے پاس جاکر ابھی اس نے کچھ کہا بھی نہیں تھا کہ اندر سے آواز آئی۔ ’’مائی معاف کر۔‘‘
اور وہ ’’معاف کر کے‘‘ آگے بڑھ گئی۔
چراغ دین نامی اندرون لاہور کے شہری نے بتایا:
’’فسادات شروع ہوئے تو میں بھی اپنا امرتسر چھوڑ کر نئی جنت کی تلاش میں چل نکلا، ساتھ بہنیں بھی تھیں۔ ماں، باپ، بھائی اور چچا ملا کر ہم کل سولہ افراد تھے۔ ہم سب اپنی جمع پونجی سمیٹ کر لاہور والی ٹرین کی طرف چل نکلے۔ یہ سفر کتنا مشکل تھا؟ یہ کس کو خبر تھی۔ بس اتنا معلوم تھا کہ اگر بچ گئے تو باقی زندگی سکون کے ساتھ گزر جائے گی۔لیکن ٹرین تک آتے آتے کئی بار موت سے آنکھیں چار ہوئیں۔ دیکھا ٹرین پر تو اتنے لوگ سوار ہیں کہ جگہ ہی نہیں بچی تھی۔ ہم اندر داخل ہوئے تو وہاں بھی بہت سے لوگ پہلے سے موجود تھے۔ خوف زدہ چہروں والے لوگ، ڈرے سہمے لوگ آنکھوں میں پیلا رنگ لیے بیٹھے تھے۔ جبکہ ٹرین کی کھڑکیوں اور دروازوں پر لوگ لٹکے ہوئے تھے۔ ٹرین ابھی امرتسر سے آگے نکلی تھی کہ حملہ ہو گیا۔ سکھوں کے جتھے نے ٹرین رکوالی:
’’ست سری اکال‘‘ کا نعرہ بلند ہوا، کرپانیں نکل آئیں، جسم کٹنے لگے گاجر مولی کی طرح۔ عورتوں اور بچوں کی چیخوں اور مردوں کی آہ بکا نے فضا کو سوگوار کر دیا۔ اپنی بہن کی چیخ مجھے الگ سے سنائی دی۔ پہلے ابا کا ہاتھ کٹا، پھر چچا کی گردن ایک ہی وار میں گئی، دوسرے چچا کا پیٹ چاک ہو گیا، آنتیں باہر آگئیں۔ لاش مجھ پر گری، اتنے میں ایک اور لاش مجھ پر گری، میں گرم لہو میں دب گیا۔مجھے کچھ ہوش نہ رہا، آنکھ کھلی تو میں والٹن ریلوے اسٹیشن پر تھا، جہاں کسی کی آواز سنائی دی:
’’ابھی زندہ ہے، نبض چل رہی ہے۔‘‘
پھر مجھے اٹھایا گیا اور ایک طرف زمین پر لٹا دیا گیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ لاہور آنے والی ٹرین میں صرف لاشیں ہی آئی تھیں۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی لاشیں۔ عورتوں کی لاشیں کم تھیں، شاید وہ ’’زندہ لاشیں‘‘ بن گئی ہوں۔ ایک اور شخص بتا رہا تھا ٹرین میں چار بوگیاں ایسی تھیں جن میں عورتوں کے اعضا تھے اور لاش تو کوئی سلامت نہ تھی۔ لوگ اپنے ان پیاروں کو تلاش کررہے تھے۔چراغ دین نے روتے ہوئے بولا: ’’پاکستان تو ہم نے حاصل کیا، قربانیاں تو ہم نے دی ہیں، درد تو ہمارے جگر میں اٹھا تھا لیکن آج بھی ہم خوش ہیں کہ پاکستان تو بن گیا۔ اب ضرورت پاکستان کی قدر کرنے کی ہے۔‘‘
بوٹا مسیح بھی امرتسر سے لاہور آیاتھا،اس نے بتایا:میرا دل کبھی نہیں گھبرایا لیکن جب اجاڑے پڑے تو امرتسر کے بازار سے مجھ کو ہی لاشیں اٹھانا تھیں۔ میں نے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ روح کانپ اٹھی۔ گلی گلی لاشیں بچھی ہوئی تھیں۔ ہر لاش سے انتقام لیا گیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ہندوئوں اور سکھوں نے عورتوں کی بے حرمتی کرنے کے بعد لاشوں کو بھی بے حرمت کیا گیا۔ مردوں کی لاشوں کو جلایا، پھر ایسا بھی ہوا کہ بازار میں پڑی لاشوں پر کتے چھوڑے گئے، وہ رخسار جن پر کبھی نگاہیں سجدے کیا کرتی تھیں کتوں کے نوکیلے دانتوں کی زد میں آئے، آنکھیں نکال دی گئیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امرتسر کی گلیوں میں ایک بوڑھے کو برہنہ کر کے اس کی ٹانگیں مخالف سمت میں ٹریکٹروں سے باندھ کر چیر ڈالی گئی تھیں، پھر لاش کو جلا دیا گیا۔ میں نے ایک مسجد میں عورت کی لاش دیکھی جو نہایت بری حالت میں تھی۔ قریب ہی اس کا بچہ جس کی عمر بمشکل دو برس ہو گی، نیم وا آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭