قائداعظم مسلمانوں کے لئے مسیحا ثابت ہوئے

قائد اعظمؒ محمد علی جناح کی زندگی قوم کے ہر بچے جوان اور بوڑھے کیلئے یکساں طور پر سبق آموز ہے۔ لند ن میں وسائل کی کمی کی باعث رہائش اور تعلیم حاصل کرنا آسان نہ تھا لیکن قائد اعظم کچھ بننے کا جذبہ لے کر نکلے تھے۔ اگر پختہ ارادہ اور سچا جذبہ ہو تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ قائد اعظم بیرسٹر بن کر لوٹے اور کچھ ہی عرصہ میں قانون دانوں کی صف میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ شروع میں اْن کا ذریعہ معاش وکالت تھا اور ایک ہی مقصد تھا کہ اپنا ایک الگ آزاد اور خود مختار ملک ہو اور یہاں کے بسنے والے لوگ اپنا حال اور مستقبل سنوارنے میں خود مختار ہوں۔ ابتداء میں کچھ عرصہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی متحدہ رہنمائی کرتے رہے اور آزادی کے حق میں لڑتے رہے۔ مگر جلد ہی اْنہیں اس حقیقت کا احساس ہوگیا کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کربھی لی تو ہندو اپنی اکثریت کی بناء پر غلبہ وتسلط حاصل کرلیں گے۔ اس صورت میں مسلمان صرف نام کے ہی آزاد ہوں گے اور ان کی آنے والی نسلوں کی زندگی ہندوئوں کی غلامی میں کٹے گی اور ان کا دینی، تہذیبی اور تمدنی تشخص بھی برقرار نہ رہ سکے گا۔ وہ دوسرے درجے کے شہری ہوں گے جن کا کوئی مستقبل نہ ہوگا اور جن پر ترقی کے سب دروازے بند رہیں گے۔ قائد اعظم کو کسی سے نفرت نہ تھی وہ سچے ،کھرے اور امن پسند انسان تھے۔ وہ اپنے علم کی بناء پر اس نتیجے پر پہنچے کہ مستقبل میں تعصب، تنگ نظری اور غلبہ و تسلط کا ایک طوفان پرورش پارہا ہے جس کا ہدف برصغیر کے مسلمان ہوں گے۔ اس لیے اگر مسلمانوں کی دینی، تہذیبی اور تمدنی بقاء مقصود ہے تو پھر انہیں متحدہ ہندوستان نہیں بلکہ پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت کی صورت میں آزادی ملنی چاہیے۔ جس پر ان کا مکمل اختیار ہو اور جہاں وہ اپنی دینی اور تہذیبی روایات کے مطابق زندگی بسرکرسکیں۔ دوسرے مسلمان مفکر اور عمائدین بھی جن میں علامہ اقبالؒ نمایاں تھے اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔ چنانچہ طے پایا کہ کانگریس کا متحدہ قومیت کا تصور صرف ڈھونگ ہے جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں دو قومیں ہیں۔ ایک مسلمان اور دوسری ہندو۔ دونوں کے خیالات، نظریات، رہن سہن اور رسم و رواج ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ لہٰذا ان دونوں قوموں کو ایک ہی لڑی میں پروناناممکن ہے۔ قائد اعظمؒ نے کانگریس سے علیحدگی کا فیصلہ کیا کیونکہ برطانوی حکومت ہندو کانگریس سے ساز باز کررہی تھی اور اپنی سامراجی اغراض کے پیشِ نظر مسلمانوں کو نظر انداز کرکے برصغیر کی حکومت کانگریس کے سپرد کرنا چاہتی تھی۔ قائد اعظم نے جب محسوس کیا کہ ہمارا گزارا کانگریس کے ساتھ ممکن نہیں تو اْنہوں نے کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کی جدوجہد شروع کردی۔ تحریک پاکستان کے وقت مسلمانانِ ہند کا جذبہ جواں تھا اور اس نے اپنے محبوب قائد محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں طویل جدوجہد اور بیش بہا قربانیاں دے کر برصغیر کے ہندوئوں اور فرنگیوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ انیسویں صدی کا آخری حصہ اس لحاظ سے ناقابلِ فراموش ہے کہ اس میں علمی اور سیاسی بیداری کی وہ لہر بیدار ہوئی جس نے بیسویں صدی کے آغاز تک باقاعدہ سیاسی تحریکوں کی شکل اختیار کرلی۔ 1906میں مسلم لیگ کا قیام اس ارتقائی عمل کا نتیجہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برصغیر کی دونوں بڑی قوموں کے درمیان کشمکش تیز تر ہوتی گئی اور بالآخر جب شاعر مشرق نے آزاد مسلم ریاست کاتصور پیش کیا تو قوم کو ایک واضح نصب العین میسر آگیا۔ اب صورت یہ تھی کہ منزل کے آثار نظروں کے سامنے تھے اور قافلہ سرگرم عمل تھا، صرف ایک رہنما کی ضرورت تھی جو قدرت نے محمد علی جناح کی صورت میں مہیا کردیا۔ یہ دبلا پتلا انسان جو آہنی عزم اور ناقابل شکست ارادوں سے ترتیب دیا گیا تھا جلد ہی ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن بن گیا اور ہر انسان نے اسے اپنا قائد تسلیم کرلیا۔ یہ قائد اعظمؒ کی شخصیت کا اثر تھا کہ انہوں نے 1940ء میں جو قرار داد پاکستان منظور کروائی تھی اسے 1947ء میں تاریخ کی ایک حقیقت میں بدل دیا اور مسلمانان برصغیر دو سو سال سے جو خواب دیکھ رہے تھے اس کی زندہ تعبیر پاکستان کی صورت میں پیش کردی۔ پاکستان کا حصول جہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور اعلیٰ سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا وہاں اْس بے مثال قومی یک جہتی کا بھی مظہرتھا جس کی تعلیم قائد اعظم اپنی قوم کو مسلسل دیا کرتے تھے۔ آپ نے بار بار مسلمانوں سے فرمایا کہ ہماری نجات ہمارے مکمل اتحاد، باہمی اتفاق اور نظم وضبط میں ہے۔ ہم امن عالم کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی تمام اقوام کے لیے بہت دوستانہ ہوگی۔ دنیا کی کوئی طاقت کسی منظّم قوم کے درست فیصلے کی مزاحمت نہیں کرسکتی ہے۔ 17 اگست 1947کو آپ نے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب پر قوم کے نام اپنے ایک پیغام میں فرمایا ’’ ہم پْر امن رہناچاہتے ہیں اور اپنے قریبی ہم سایوں اور ساری دنیا سے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ ہم اقوام متحدہ کے منشور کے حامی ہیں اور امنِ عالم اورعالمی خوش حالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔‘‘ 30 اکتوبر 1947 کو آپ نے یو نیورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی قوم ابتلا اور ایثار کے بغیر آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔ ہم شدید دشواریوں اور ناگفتہ بہہ مصائب میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہم خوف اور اذیت کے تاریک ایّام سے گزر ے ہیں لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اتحاد، حوصلے، خود اعتمادی اور اللہ کی تائید سے کام یابی ہمارے قدم چومے گی۔
قائد اعظم ہر مشکل مرحلے پر اپنی قوم کاحوصلہ بڑھاتے رہے۔ اْن کے اندر عزم اوریک جہتی کی روح پھونکتے رہے کیوں کہ ان کا ایمان تھا کہ ہم جس قدر عظیم قربانیاں دیں گے اسی قدربہترعمل اورکردارکا مظاہرہ کریں گے۔ 24 اکتو بر 1947 کو آپ نے ایک پیغام میں فرمایا ’’آپ سب کے لیے میرا پیغام امید، حوصلے اور اعتماد کا پیغام ہے۔ آئیے! ہم باقاعدہ اور منظم طریقے سے اپنے تمام وسائل مجتمع کریں اور در پیش سنگین مسائل کا ایسے عزم اور نظم و ضبط سے مقابلہ کریںجو ایک عظیم قوم کاسرمایہ ہوتا ہے۔‘‘ 30 اکتوبر 1947 ہی کو ریڈیو پاکستان لاہور سے قائد اعظم نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا کہ ایک متحد قوم کو جس کے پاس ایک عظیم تہذیب اور تاریخ ہے کہ کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کا م ، کام اورکام کریں۔ آپ یقینا کام یاب ہوں گے۔ اپنا نصب العین یعنی اتحاد، ایمان اور تنظیم کو فراموش نہ کیجیے۔‘‘ 8 نومبر1947 کو قائد اعظم نے ایک بیان میں فرمایا ’’ میں چاہتا ہوں کہ باوجود ان خطرات کے جو ہمیں درپیش ہیں آ پ سب کامل اتحاد اوریک جہتی کے ساتھ کام کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستان کاوقار پہلے سے زیادہ بلند رکھتے ہوئے اور اسلام کی عظیم روایات اور قومی پرچم کو بلند کیے ہوئے ان خطرات کے درمیان سے کام یابی کے ساتھ گزرجائیں گے۔‘‘ بانی پاکستان محمد علی جناح کے تقریباً تمام سوانح نگار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان کا قیام اگرچہ برصغیر کے مسلمانوںکی امنگوںاور آرزوئوں کے عین مطابق اور ان کی منظم جدوجہدکانتیجہ تھالیکن پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کاسبب قائد اعظم محمد علی جناح کی کرشمہ ساز قیادت تھی۔ پروفیسر شریف المجاہد نے لکھا ہے کہ پاکستان ایک ان تھک جدوجہد کے بعد انتشار اورافراتفری کے عالم میں قائم ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ دنیا کی شاید ہی کسی اورقوم نے اپنی زندگی کے سفرکا آغاز اس قدر محدود وسائل کے ساتھ اور ایسے سنگین اور ابترحالات میںکیا ہو۔ اسے ورثے میں نہ کوئی مرکزی حکومت ملی تھی نہ ا س کے پاس کوئی دارالحکومت تھا۔ نہ کوئی انتظامی ڈھانچہ تھا، نہ منظم دفاعی فوج۔ خزانہ خالی تھا کیوں کہ ہندوستان نے پاکستان کو زر مبادلہ کے بقایاجات کا وہ حصّہ ادا کرنے سے انکارکردیاتھا جو اس کا اپنا حق تھا۔ ان تمام حالات میں پاکستان کا زندہ سلامت رہنا معجزے سے کم نہ تھا۔ تاریخ کے اس انتہائی نازک مرحلے پر پاکستان کو اگر کچھ میسر تھا تو وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت تھی۔ قائد اعظم اس دور میںامورِ مملکت کے نگراں تھے اور پاکستان کے عوام کو آپ کی قیادت پر بے انتہا اعتماد تھا۔ یہ قائد اعظم کا سیاسی تدبّر تھا کہ آپ نے پاکستانی قوم کے دلوں میں اپنے لیے موجود زبردست عقیدت و محبت کو بروئے کارلاکر ان کو درپیش مشکلات اور مصائب سے نمٹنے کاحوصلہ عطاکیا۔ تباہیوں بربادیوں اور ہول ناکیوں کانئی توانائیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کاعزم و حوصلہ عطاکیا۔ ان کا رخ تعمیر دوراور مثبت نتائج کی حامل سرگرمیوں کی جانب موڑ دیا۔ ان کو نظم وضبط برقرار رکھنے اورامن وامان کو مستحکم کرنے کی تلقین کی۔27 نومبر 1947 کو آپ نے پاکستان کے گورنرجنرل کی حیثیت سے ایک بیان میں پاکستانی قوم سے فرمایا ہمیں جو کچھ حاصل کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو مجتمع کریں اور اپنی آئندہ نسلوںکے کردار کی تعمیرکریں فوری اور اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو سائنسی اورفنی تعلیم دیں تاکہ اپنی اقتصادی زندگی تشکیل کرسکیں ہمیں اس بات کااہتمام کرنا ہوگا کہ ہمارے لوگ سائنس، تجارت، کاروبار اور بالخصوص صنعت و حرفت قائم کرنے کی طرف دھیان د یں لیکن یہ نہ بھولیے کہ ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے جو نہایت تیزی سے اس سمت میں جارہی ہے۔ آئیے ہم غور کریں کہ ہم نے اپنے قائد کے تدبّر کی روشنی میں کتنا سفر طے کیا ہے۔ 24 دسمبر1947 کو قائد اعظم نے اْردن کے سفیر متعین پاکستان کی اسنادِ سفارت قبول کرتے ہوئے فرمایا’’ ہمارے نزدیک اسلام ہماری زندگی اور بقا کا منبع ہے اس کی وجہ سے ہماری ثقافت اور ماضی کی روایات عالم عرب سے منسلک ہیں‘‘ قائد اعظم محمد علی جناح نے 19 فروری 1948 کو آسٹریلوی عوام کے نام اپنے ایک نشری پیغام میں فرمایاتھا ’’ ہم اپنے ہمسایوں کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ ہم صلح اور آشتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تاکہ عالمی امور میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔‘‘ 21 فروری1948 کو آپ نے پاکستان کے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’ اس مشینی دور میں جب انسان کی کج رو ذہانت ہرروز تباہی کے نت نئے آلات ایجاد کررہی ہے آپ کو وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ ہماری اس سے زیادہ کوئی خواہش نہیںکہ ہم خود بھی امن و سکون سے زندہ رہیں اوردوسروںکو بھی امن و سکون کی فضا میں زندہ رہنے کاحق دیں۔‘‘ 26 فروری 1948 کو پاکستان میں متعین امریکا کے پہلے سفیرکی اسنادِ سفارت قبول کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا: ’’ ہمیں نازک صورتِ حال کا سامنا ہے، تاہم ہمیں اس اَمر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم آزاد اورامن پسند قوم کی حیثیت سے زندہ رہتے ہوئے مشترک مقاصد اور عزم کی وجہ سے ان مشکلات پر کام یابی کے ساتھ قابو پالیں گے۔‘‘
قائد اعظم محمد علی جناح ایک امن پسند رہنما تھے۔ لہٰذا عالمی امن آپ کو ہمیشہ عزیز رہا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت ہمارے قومی استقلال کا بہترین مظہر تھی اور اس قومی استقلال کے زیرِ اثر جو تعمیری کام پاکستان میں ہوا ہے وہ دراصل قوم کی جانب سے اپنے قائد کی شخصیت کو ایک بہترین خراج عقیدت ہے۔ گویاپاکستان کی خدمت قائد اعظم کی قیادت وشخصیت کے اعتراف کے مترادف ہے۔ یعنی پاکستان اور قائد اعظم رہتی دنیا تک ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی میں وہ حکمت عملی اور خطوط متعین کردیے تھے جو پاکستان کی بقا، سلامتی اور خوش حالی کی ضمانت دیتے ہیں آپ نے یکم جولائی 1948 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا ’’ پاکستان کے عوام کو خوش حال اور فارغ البال بنانے کے لیے مغرب کے اقتصادی نظام کے نظری اور عملی طریق? کارکو اختیار کرنا ہمارے لیے بے سود ہوگا، ہمیں چاہیے کہ ہم ایک نئی راہ ِ عمل اختیارکریںاوردنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کریں جو انسانی اخوّت اور سماجی انصاف کے صحیح اسلامی نظریات پرمبنی ہو۔ اس طرح نہ صرف ہم اپنی وہ ذمے داری بھی پوری کرسکیں گے جو ہم پر مسلمان ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتی ہے بلکہ عالمِ انسانیت کو امن کا وہ
پیغام بھی دے سکیںگے جو عالم انسانیت کو تباہی سے بچاسکتا ہے اوراس کی خوش حالی اور ترقی کا موجب بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ تحریک پاکستان کے دوران آپ نے لاہور کے اسلامیہ کالج برائے خواتین کی طالبات اور اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلم معاشرے میں بہت سی برائیاں اورغیراسلامی رسوم و عقائد باہر سے دَر آئے ہیں اوریہ مسلمان تعلیمی اداروںکافرض ہے کہ وہ بچوں کی ایسے خطوط پرتربیت کریںکہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔‘‘ قائد اعظم محمد علی جناح کو مسلمانوں کے ایک قائد کی حیثیت سے اپنی ذمے داریوںکا احساس تھا بلکہ آپ بحسن وخوبی ان ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونا بھی جانتے تھے۔ آپ کا ایمان تھا، جیسا کہ آپ نے 3 جولائی 1948 کوکوئٹہ میں ایک تقریرکے دوران فرمایا ’’ کسی قوم کو بیدارکرنا ایک بڑی عظمت ہے اور اس قوم کو منظم کرنا اْس سے بھی بڑی عظمت ہے اور اپنی قوم کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردینا سب سے بڑی عظمت ہے۔‘‘ پاکستان کے قیام کی پہلی سال گرہ کے موقع پر 14 اگست 1948 کو اپنے ایک پیغام میں ایک سال کے دوران پاکستان کی مختلف حوالوں سے ترقی کاجائزہ لیتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’کسی مملکت کی تاریخ میں ایک سال کاعرصہ اس کے کارناموںکا جائزہ لینے اور اس کے مستقبل کااندازہ لگانے کے لیے بہت مختصر ہے لیکن جس طرح ہم نے زبردست مشکلات پر قابو پایا ہے اورگزشتہ بارہ ماہ میں جوٹھوس ترقی کی ہے اس کی بناپرہم یہ امید کرنے میںحق بہ جانب ہیںکہ ہمارا مستقبل شان دارہوگا۔ آپ نے عوام سے فرمایا ’’خدا نے آپ کو ہر چیز عطا کی ہے، آپ کے وسائل لامحدود ہیں۔ آپ کی مملکت کی بنیادیں رکھ دی گئیں اب اس کی تعمیر آپ کی ذمے داری ہے۔ یہ آپ کا کام ہے کہ جس قدر جلد اور جس قدر بہتر ہوسکے آپ اس کی تعمیرکریں۔ بس آگے بڑھیے! خدا آپ کا حامی و مددگار رہے۔
محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل بنے۔کارواں منزل پر پہنچ چکا تھا لیکن میر کارواں تھک کر چور چور ہو گیا اور 11 ستمبر 1948ء کو اپنے معبود حقیقی سے جا ملا۔ قائداعظم کی سیاسی زندگی کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ ایک بار بھی جیل نہ گئے۔ قائداعظم عزم و عمل، دیانت، خطابت، اور خود داری کا مرقع تھے۔ ان کے اندر وہ تینوں خوبیاں موجود تھیں جو میر کارواں کا رخت سفر کہلاتی ہیں۔ انکے کمزور اور نحیف جسم میں ہر دم، دم گرم اور جان بے تاب کا لاوا ابلتا رہتا تھا۔ محمد علی جناح کی شخصیت اور کردار کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات سے پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔عام طور پر سیاستدان، سیاست اور حکمت عملی میں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے جائز و ناجائز ذرائع کی تمیز نہیں کرتے لیکن قائداعظم کی افتاد طبع بالکل مختلف تھی، وہ دیانت داری اور راست بازی پر یقین رکھتے تھے۔ کبھی کبھار شیریں طنز و مزاح کے نشتر بھی چلاتے تھے۔ ایک دفعہ گاندھی نے ان سے کہا:۔ ’’آپ نے مسلمانوں پر مسمریزم کر دیا ہے‘‘۔ جناح نے برجستہ جواب دیا:۔ ’’جی اور آپ نے ہندئووں پر ہپناٹزم‘‘۔ ایک مرتبہ دونوں رہنما اکٹھے اخباری نمائندوں اور فوٹو گرافروں کے ہجوم کے سامنے آئے۔ گاندھی نے جناح سے پوچھا ’’انہیں دیکھ کر آپ دل میں خوش تو ضرور ہوئے ہونگے؟‘‘ جناح بولے: ’’جی میں خوش تو ضرور ہوا مگر آپ سے کم‘‘۔ان دونوں لیڈروں کے مزاج اور انداز فکر ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف رہے۔ یہ اختلاف مزاج کبھی کبھی ان کی آپس میں فقرے بازی میں بھی ظاہر ہو جاتا ھا۔ایک بار جناح نے گاندھی سے اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم میدان سیاست میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہو کہ لوگ کس بات سے خوش ہونگے۔ پھر اسکے مطابق تم اقدام کرتے ہو مگر میرا نداز بالکل اسکے بر عکس ہے، میں پہلے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کیا بات صحیح اور مناسب ہو گی اور پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہوں۔ بالآخر لوگ میری بات پر لبیک کہتے ہیں اور مخالفت رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے‘‘۔ سیاست کے بارے میں قائداعظم نے فرمایا: ’’سیاست میں جذبات کی حماقت کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ سیاست شطرنج کا کھیل ہے۔ برائیوں کو آنسوئوں سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ جذبات کی ٹونٹی کھولنا آسان مگر اسے بند کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جذبات کے طوفان میں معقول پالیسی بہہ جاتی ہے۔ مشکل موقعوں پر دماغ ٹھنڈا اور آنکھیں خشک رکھنی پڑتی ہیں تاکہ حالات صحیح نظر آئیں اور ان سے صحیح نتیجہ اخذ کیا جا سکے‘‘۔
ہیکٹر بولائیتھو اپنی کتاب ’’جناح دا فائونڈر آف پاکستان‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’سیاسی نا کامی اور ذاتی صدمے کے باوجود ان کی ذہنی صلاحتیوں اور ظاہری ٹپ ٹاپ میں کوئی فرق نہ آیا۔ لارڈ جووٹ جو چھ سال برطانیہ کے وزیر قانون رہے کے الفاظ ہیں۔ ’’جناح قانونی معاملات میں بڑے ہوشیار تھے اور پریوی کونسل میںاپنے مقدمات کی پیروی میں وہ بڑی فہم و فراست کا ثبوت دیتے تھے۔ انکی ان صلاحیتوں کے باعث ہم سب ان کا بڑا احترام کرتے تھے‘‘۔ جناح کی شخصیت پر مونیٹگو نے سب سے گہری نظر ڈالی وہ کہتا ہے کہ ’’سب لیڈروں کے ساتھ جناح مجھ سے ملے۔ وہ ابھی جواں ہیںاور آداب محفل سے پوری طرح واقف ہیں۔ ان سے ملنے والا چہرے مہرے سے بہت متاثر ہوتا ہے۔ وہ استدلال اور فن بحث میں طاق ہیں۔ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل کے متعلق ان کا منصوبہ کلیتاً منظور کیا جائے۔ میں جناح کی بحث سن کر بہت تھک گیا تھا اور میں نے ان کو ڈرانے کی کوشش کی، بحث میں الجھانے کی کوشش کی مگر خود الجھ کر رہ گیا۔ اس میں شک نہیں کہ جناح نہایت قابل شخص ہیں‘‘۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment