پاکستان کا قیام اس طویل جدوجہد کا ثمر ہے جو مسلمانانِ برصغیر نے اپنے علیحدہ قومی تشخص کی حفاظت کے لیے شروع کی، اور اس کوشش میں خواتین کا کردار بھی نہایت اہم رہا۔
انگریزی سامراج سے چھٹکارا دلوانے اور سیاسی شعور خواتین میں اجاگر کرنے کے لیے جن خواتین نے تگ و دو کی، ان میں سر فہرست مادر ملت فاطمہ جناح،بیگم مولانا محمد علی جوہر،بیگم سلمی تصدق حسین،بیگم جہاں آراء شاہنواز بیگم،بیگم رعنا لیاقت علی،سمیت متعدد عظیم خواتین شامل تھیں۔ یہ وہ خواتین تھیں جو بیسویں صدی میں عملی، معاشرتی، تعلیمی، سیاسی، میدان کی جانباز سرگرم اور نڈر کارکن رہیں۔ یہ وہ خواتین تھیں جنہوں نے عام، گھریلو عورت میں سیاسی شعور نہ صرف بیدار کیا بلکہ علیحدہ ملی تشخص کی تحریک کا جذبہ بھی اجاگر کیا تاکہ خواتین گھروں سے نکل کر تحریک پاکستان کی جدوجہد میں عملی طاقت بن کر ابھریں۔ یہی وہ طاقت تھی جس نے خواتین کو اتنا بے خوف ونڈر بنا دیا کہ وہ کسی سامراج یا ہندو بنیے سے نہ ڈریں بلکہ بے خوف و خطر حب الوطنی کے جزبے سے سرشار عظیم مقصد کی بارآوری کے لیے متحد ہوئیں۔
قائد اعظم کی ہردلعزیز اورشفیق ہمشیرہ فاطمہ جناح کا جنم30 جولائی1893 میں کراچی میں ہوا۔انہوں نے دندان ساز کے طور پر تعلیم حاصل کی لیکن 1929میں محمد علی جناح کی اہلیہ کی افسوس ناک وفات کے بعد انہوں نے اپنی زندگی بڑے بھائی کے لیے وقف کردی اورقریبی مشیر کے طور پر خدمات بجا لاتی رہیں۔تحریک پاکستان کی جدوجہد میں فاطمہ جناح قائد اعظم کے قدم بہ قدم ساتھ رہیں اور مسلم خواتین کی کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کی وہ متحرک ممبر تھیں،جہاں انہوں نے خواتین شاخ کی نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
بقول شریف المجاہدلوگوں نے اس حقیقت کو نہیں جانا کہ1940 کے دوران جناح جہاں بھی جاتے فاطمہ جناح ان کے ساتھ ہوتیںجو جدوجہد آزادی کے دوران مسلم خواتین کو درس دیتی تھیں کہ وہ اس جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ چلیں۔اس دور کی کئی تصاویر اس بات کی عکاس ہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پیچھے نہیں بلکہ ساتھ ساتھ چلتیں۔دونوں بھائی بہن نے قوم کو واضح پیغام دیا کہ عورت مرد میں کوئی تفریق نہیں۔یہ ایک ہی گاڑی کے دو مساوی پہیے ہیں۔فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے ساتھ کل28 برس گزارے اور کبھی انہیں تنہا نہ چھوڑا۔
بیگم سلمیٰ تصدق نے مسلم لیگ کے شعبہ خواتین کے قیام کے بعد عام خواتین کو بھی مسلم لیگ کا رکن بنانے کے لیے فعال کردار ادا کیا۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز نے تین گول میز کانفرنس میں شرکت کر کے مسلم خواتین کی نمائندگی کا حق ادا کیا۔ یہ وہی خواتین تھیں جنہوں نے سول نافرمانی کی تحریک میں اہم کردار ادا کر کے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔ سیکرٹریٹ پر مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے والی خاتون فاطمہ صغریٰ تحریک پاکستان کی فعال رکن تھیں اور ان کی عمر فقط 14 برس تھی۔ انہیں حراست میں لیا گیا مگر اس باہمت خاتون نے ہمت نہ ہاری اور مسلم خواتین کو متحرک کرتی رہیں یہی وجہ ہے کہ خواتین لاٹھی چارج، آنسو گیس، حراست کی صعوبتوں سے گھبرائے بغیر بے خوف و خطر ہو کر پاکستان کے حصول کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ فاطمہ صغریٰ تحریک پاکستان کی اْن نامور کارکنوں میں شامل تھیں، جنہوں نے زمانہ کمسنی ہی میں اس جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور اپنا ایک مقام پیدا کیا۔جب تحریک پاکستان کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی، اور ہر چھوٹا بڑا فرد اس تحریک میں شامل تھا،آپ اس وقت دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں، محترمہ فاطمہ صغریٰ نے انیس سو چھیالیس میں تحریک کے دوران سول سیکرٹریٹ سے برطانیہ کا جھنڈا اْتار کر دوپٹے سے بنا ہوا مسلم لیگ کا پرچم لہرایا تھا۔اس کارنامے پر حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں قومی اعزاز لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ اور پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
پنجاب میں جب فسادات شروع ہوئے تو ریلیف کمیٹی کی سیکرٹری بیگم سلمیٰ تصدق تھیں ان فسادات میں خواتین نے جرات وہمت سے کام کیا۔ پنجاب میں تحریک پاکستان کا علم بلند کرنے والی خواتین میں بیگم گیتی آرا، بیگم سلمیٰ تصدق، بیگم شاہنواز کے نام نمایاں ہیں ان کے ساتھ ساتھ بنگالی خواتین بھی پیش پیش رہیں۔
بیگم شائستہ نے مسلم گرلز فیڈریشن تنظیم کی روح رواں تھیں اس زمانے میں نوجوان لڑکیوں کو منظم کرنا کوئی آسان نہ تھا مگر آپنے اس دشوار مرحلے کے کسی مقام پر ہمت نہ ہاری اور ہندوستان بھر کی طالبات کو منظم کر کے ہی دم لیا یہ وہی طالبات تھیں جو تحریک پاکستان میں ہراول دستے کے طور پر سامنے آئیں اور قیام پاکستان کے لیے قابل فخر اور عہد آفرین کارنامے تاریخ میں رقم کیے۔
بیگم رعنا لیاقت علی پاکستان کی خاتون اول، پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیگم، تحریک پاکستان کی رکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔بیگم رعنا لیاقت علی لکھنو، برطانوی ہندوستان میں 1912ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم نینی تال کے ایک زنانہ ہائی اسکول میں حاصل کی۔ لکھنو یونیورسٹی سے ایم اے معاشیات اور عمرانیات کیا۔ کچھ عرصہ ٹیچر رہیں۔ 1933ء میں خان لیاقت علی خان سے شادی ہوئی۔ پاکستان بننے سے قبل آپ نے عورتوں کی ایک تنظیم آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا)” قائم کی۔ قیام پاکستان کے بعد ایمپلائمنٹ ایکسچینج اوراغوا شدہ لڑکیوں کی تلاش اور شادی بیاہ کے محکمے ان کے حوالے کیے گئے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس منعقدہ 1952ء میں پاکستان کے مندوب کی حیثیت سے شریک ہوئیں۔ 1954ء میں ہالینڈ اور بعد ازاں اٹلی میں سفیراور سندھ کی گورنر بھی رہیں۔بیگم رعنا لیاقت علی 1990ء میں حرکتِ قلب بند ہونے کے سبب کراچی میں انتقال کرگئیں اور مزارِ قائد کے احاطے لیاقت علی خان کے پہلو میں مدفون ہیں۔
ممتاز خاتون رہنما لیڈ ی عبداللہ ہارون کی مقام ِپیدائش ایران تھا۔وہ 1886 میں پیدا ہوئیں اور کراچی میں اپنے والدین کے ساتھ آباد ہوئیں۔1914 میں سر عبد اللہ ہارون سے شادی ہوئی۔ وہ سندھ میں عورت تنظیم کی بانی تھیں جس کا نام انجمنِ خواتین تھا۔اس تنظیم کا اہم مقصد سندھ کے خواتین کی خراب اقتصادی اور سماجی حالت کو درست کرنا تھا۔وہ عورتوں کی تعلیم کی بہت بڑی حامی تھیں اوراپنے گھر میں اسکول قائم کرکے اپنے علاقے کی عورتوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتی تھیں۔بیگم عبداللہ ہارون کا سیاسی کیریئر 1919 میںاس وقت شروع ہوا جب وہ سندھ میں خلافت تحریک کی سخت پیروکار بن گئیں۔1938 میںانہیں آل انڈیا مسلم لیگ خواتین کی سینٹرل سب کمیٹی میں نامزد کیا گیا اور سندھ میں خواتین کی سب کمیٹی کی صدر منتخب ہوئیں۔انہوں نے خواتین کو آل انڈیا مسلم لیگ کے بینرتلے لانے کے لئے دن اور رات کام کیا۔
1943 میں خواتین نیشنل گارڈ کی تقریب ہوئی تو پانچ ہزار خواتین نے شرکت کی تو قائد نے خواتین کو مخاطب کر کے کہا کہ خواتین کو سپاہیوں کی طرح کام کرنا ہوگا تب جا کر ہم پاکستان حاصل کر سکیں گے۔
سب سے زیادہ خواتین کو صوبہ سرحد میں منظم کرنا مشکل تھا کیونکہ یہاں پردے کی سخت پابندی کی وجہ سے گھروں سے باہر آکر جلسے جلوس کا حصہ بننا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا مگر قائد کی قیادت میں خواتین منظم ہوئیں بلکہ شہر شہر جلسے جلوس منعقد کرنے میں ان خواتین نے بڑی ہمت کا ثبوت دیا کہ مردوں کے بعد خواتین کا سرفروشی کے لیے کفن سر پر باندھے سرحد جیسے صوبے میں خواتین کا اٹھنا انگریزوں کے لیے پریشان کن بننے لگا، یہی وجہ ہے کہ ان کی طاقت کچلنے کے لیے انہیں زدکوب کیا جاتا، قیدوبند کی اذیتیں بھی دی گئیں مگر ان کا حوصلہ نہ ٹوٹا۔
پنجاب کی فاطمہ کی طرح سرحد کی محترمہ سردار حیدر نے بھی سیکرٹیریٹ کا یونین جیک اتار کر مسلم لیگ کا جھنڈا بلند کیا۔ بالاحصار پل پر ریل گاڑی روکنے کے لیے خواتین پٹری پر لیٹ گئیں اور بے شمار زخمی بھی ہوئیں مگر زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے ریڈیو سٹیشن پشاور پہنچ گئیں اور عمارت پر حملہ کر دیا، ان کے پاس ہتھیار نہ تھا فقط جزبہ تھا جس نے انگریزوں کو دن میں تارے دکھائے۔
ریفرنڈم کا اعلان جب سرحد میں ہوا تو یہ خواتین ہی تھیں جنہوں نے گھر گھر جا کر لوگوں کو قیام پاکستان کا شعور دیا، حالانکہ کہ یہاں کانگریس کی وزارت تھی اور پاکستان کے لیے عام عوام کی رائے ہموار کرنا کوئی اتنا آسان کام نہ تھا مگر خواتین نے اپنی سیاسی بصیرت، خردمندی، اور معاملہ فہمی سے عام عوام کی رائے پاکستان کے حق میں ہموار کرنے کے لیے کوشاں رہیں ، یہی وجہ ہے کہ 90 فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں پڑا، اور کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی اور اس بات کا کریڈٹ سرحد کی خواتین کو جاتا ہے۔
1935 کے ایکٹ کے مطابق مسلم خواتین کو ووٹ کا حق حاصل نہ تھا لیکن مسلم ویمن ونگ کی خواتین نے اس لاء کی بھرپور مزاحمت کی۔ تحریک پاکستان کے لیے قائد نے مسلم خواتین کارکن کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی، آپ اکثر کہا کرتے کہ قلم اور تلوار کے علاوہ تیسری طاقت بھی ہے اور وہ ہے خواتین!،اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ خواتین کا سیاسی شعور اور عملی کردار جدوجہد آزادی میں کسی طور مردوں سے کم نہ تھا اور تحریک آزادی میں ان کے کارہائے نمایاں تاریخ کا نہ صرف حصہ بن گئے بلکہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے جو آج کی خواتین کے لیے مشعل راہ بھی ہیں۔
ایسا ہی اعتراف گاندھی نے اپنی پتنی کے لیے کیا:’’عدم تشدد کاسبق میں نے اپنی پتنی سے سیکھا‘‘عورتوں کی فعال شرکت نے ہی ہمیں آزادی سے ہم کنار کیا۔مسلم خواتین کے مقابل کئی رکاوٹوں کے باوجود انہوں نے سیاسی منظر نامے میں اپنا طاقت ور کردار نبھا یا۔وہ چہار دیواریوں سے باہر آئیں اورعلیحدہ وطن کے حصول تک جدوجہد کی۔
٭٭٭
٭٭٭٭٭