تحریک انصاف حکومت کو امریکی جال سے بچانے کےلئے چین متحرک

امت رپورٹ
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو آئی ایف ایم کے ذریعے پھینکے گئے امریکی جال میں پھنسنے سے بچانے کیلئے چین متحرک ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں چینی سفارت خانہ بھرپور کردار ادا کر رہا ہے اور چینی حکام کی جانب سے مجوزہ کابینہ کے ایک اہم متوقع وزیر کو یقین دہانی کرا دی گئی ہے کہ اگر پاکستان پر ڈیفالٹ کی نوبت آئی تو چین کی جانب سے کئی ارب ڈالر کا بیل آئوٹ فراہم کردیا جائے گا۔ تاہم حکومت کو بھی غیر ضروری اخراجات بند کرنا ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس یقین دہانی کے بعد متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کیلئے آئی ایف ایم سے رجوع پر اصرار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اگرچہ ان کا اب بھی مؤقف ہے کہ آخری آپشن کے
طور پر عالمی مالیاتی فنڈ سے مدد مانگی جا سکتی ہے۔ ادھر سی پیک سے وابستہ سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اور بعض پاکستانی ماہرین معاشیات کا یہ پروپیگنڈا بالکل بے بنیاد ہے کہ پاکستان کو چین کے قرض کی بڑی قسط ادا کرنی ہے، جو 3 ارب ڈالر یا اس سے زائد ہے اور وہ آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم سے یہ قرضہ ادا کرے گا۔ ان ذرائع کے مطابق سی پیک کی مد میں جو رقم ادا کی جانی ہے، وہ ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ سی پیک قرض کی ادائیگی کیلئے ہر برس اعشاریہ 9 ارب ڈالر کی رقم کا اضافہ ہونا ہے اور 2023ء تک یہ رقم ساڑھے 3 ارب ڈالر ہو جائے گی۔ جبکہ اس کے بعد ہر برس اس میں کمی آتی جائے گی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان پر 6 ارب ڈالر قرضے کی جو قسط واجب الادا ہونے والی ہے، وہ تشویشناک ہے اور سعودی تعاون کے نتیجے میں اسلامی ترقیاتی بینک سے 4 ارب ڈالر ملنے کے باوجود پاکستان کو تجارتی خسارے کے سبب ڈیفالٹ جیسی صورت حال درپیش ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق چین کی جانب سے تازہ ترین یقین دہانی اسی تناظر میں کرائی گئی ہے۔
چین نے 25 جولائی کے انتخابات کے ساتھ ہی پاکستان کے لیے 2 ارب ڈالر کا اعلان کر دیا تھا۔ تاہم پی ٹی آئی رہنما اور متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے انتخابات کے فوراً بعد صحافیوں سے گفتگو میں پاکستان کو 12 ارب ڈالر درکار ہونے اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کا بیان دیا، جس نے پاکستان کے بعض حلقوں اور سی پیک سے متعلق چینی اداروں میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کے ساتھ سی پیک کو محدود کرنے کی شرائط عائد کئے جانے کا امکان ہے۔ انہی حالات میں پاکستان کیلئے چینی سفیر یو جنگ نے 30 جولائی کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کی۔ عمران خان سے امریکہ کے قائم مقام سفیر اور روسی سفیر سمیت کئی ممالک کے سفرا حالیہ دنوں میں ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ تاہم چونکہ تحریک انصاف کے سربراہ نے ابھی حکومتی عہدہ نہیں سنبھالا، اس لیے ان ملاقاتوں پر سفارت خانوں کی طرف سے بیانات جاری نہیں کیے گئے۔ لیکن اس سفارتی روایت سے ہٹ کر چینی سفارتخانے نے عمران خان اور چینی سفیر کی ملاقات پر ایک تفصیلی بیان جاری کیا، جس میں یہ واضح کیا گیا کہ دونوں رہنمائوں میں سی پیک کی افادیت پر بات ہوئی ہے اور چینی سفیر نے کہا ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس ملاقات کے بعد بھی پاکستان میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر بحث جاری رہی۔ اس بحث کا سبب بعض ماہرین معاشیات کے یہ دعوے تھے کہ پاکستان کو ایک طرف تو آئی ایم ایف کا 6 ارب ڈالر کا قرضہ ادا کرنا ہے تو دوسری جانب سی پیک قرض کی مد میں چین کو بھی 3 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دعوئوں نے چینی حکام، بالخصوص پاکستان میں چینی سفیر کو شدید تشویش میں مبتلا کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی سفیر نے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک اہم رہنما سے ملاقات کی اور ضرورت پڑنے پر پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے مزید رقم فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ گزشتہ روز (پیر کو) برطانوی اخبار فنانشنل ٹائمز نے اسی ملاقات کے حوالے سے چینی سفیر کا ذکر کیے بغیر کہا کہ چین نے پاکستان کو ضمانت دی ہے کہ وہ اسے ڈیفالٹ سے بچا لے گا۔ برطانوی اخبار کے مطابق تحریک انصاف کے بعض سینئر رہنمائوں نے اسے بتایا ہے کہ چین نے پارٹی رہنمائوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستانی زر مبادلہ کے ذخائر کو مضبوط رکھنے کیلئے آئندہ مہینوں میں پاکستان کو مزید رقم فراہم کر دی جائے گی۔ فنانشنل ٹائمز کے مطابق ایک متوقع وزیر نے بتایا کہ غیر ملکی ادائیگیوں کیلئے چین نے پاکستان کی مدد جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ ایک اور رہنما کا کہنا تھا کہ چین نے پاکستان کو ڈیفالٹ جیسے بحران سے بچانے میں فراہم فراہم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ تاہم یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ نئی حکومت خسارے میں کمی کے لئے اقدامات کرے۔ فنانشنل ٹائمز کے مطابق چینی حکام نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنی رقم فراہم کریں گے اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ آیا یہ رقم پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے روکنے کیلئے کافی ہو گی۔ تاہم اسلام آباد میں ذرائع نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چینی حکومت پچھلے برس سے کہیں زیادہ قرضہ فراہم کر سکتی ہے اور یہ رقم 10 ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس چین نے پاکستان کو 5 ارب ڈالر قرض فراہم کیا ہے۔
لیکن چین کی جانب سے اس فراخ دلانہ پیشکش کے باوجود پاکستان کے دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانے اور اس کے نتیجے میں امریکی شرائط کے جال میں پھنسنے سے بچنے کا یقینی امکان پیدا نہیں ہوا۔ جہاں پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے 12 ارب ڈالر درکار ہونے کی بات کی ہے، وہاں آئی ایم ایف اور بعض پاکستانی ماہرین کے تخیمنوں میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو آئندہ برس تک 26 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد وزارت نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ بعض پاکستانی ماہرین معاشیات بظاہر تو آئی ایم ایف کے قرضوں کی برائیاں کرتے ہیں، لیکن بالآخر گھما پھرا کر عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس جانے کی ’’ضرورت‘‘ کے حق میں دلائل دیتے ہیں اور اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ حکومت ان ’’دلائل‘‘ کا شکار ہو سکتی ہے۔ اسلام آباد میں ذرائع کے مطابق چینی پیشکش کے بعد متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کے حق میں مزید دلائل دینا مشکل ہو گیا ہے۔ پیر کو ایک انگریزی معاصر میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے آئی ایم ایف کو آخری آپشن میں رکھنے پر زور دیا تھا۔تاہم چین کے لیے سی پیک کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے اور اسی وجہ سے آئی ایم ایف کی جانب سے سی پیک کے خلاف کسی قسم کی شرائط چین کو قبول نہیں ہیں۔ تحریک انصاف حکومت نے آئی ایم ایف سے رجوع پر اصرار جاری رکھا تو اس کے نتیجے میں پاک چین تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے، جو پاکستان کے کئی اداروں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت چین نے مجموعی طور پر 6 اقتصادی راہداریوں کا منصوبہ بنایا ہے، جن میں سے سی پیک سب سے زیادہ مختصر اور سب سے زیادہ جلدی مکمل ہونے والاہے۔ امریکہ کی جانب سے چین کے سمندری راستوں کا گھیرائو شروع ہونے کے بعد چینی حکومت بحری ناکہ بندی کے خلاف سی پیک کو مؤثر جوابی ہتھیار سمجھتی ہے۔ یاد رہے کہ دو روز قبل نگراں پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ امریکہ کی پاکستان سے اصل ناراضگی افغانستان کی وجہ سے نہیں، بلکہ چین کو اہم اقتصادی راہداری فراہم کرنے پر ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment