سلمہ بن کحیلؒ کہتے ہیں:
میں نے 3 آدمیوں کے سوا کوئی ایسا عالم نہیں دیکھا، جو خدا کی رضا کے لیے علم حاصل کرنے والا ہو: عطاء بن ابی رباحؒ، طاؤس بن کیسانؒ اور مجاہد بن جبرؒ ۔ یہ97 ہجری کا زمانہ ہے۔ کعبہ شریف لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ دنیا کے ہر کونے سے لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ان میں پیدل بھی ہیں، سوار بھی۔ بوڑھے بھی ہیں، جوان بھی۔ ان میں مرد بھی ہیں خواتین بھی۔ سیاہ بھی ہیں سفید بھی۔ عربی بھی ہیں، عجمی بھی۔ ان میں سردار بھی ہیں، ان کے خدام بھی۔ یہ سب کے سب لوگوں کے بادشاہ کی بارگاہ میں نظریں جھکائے ہوئے، لبیک لبیک پکارتے ہوئے، اسی سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے اور اسی سے فریادیں کرتے ہوئے حاضر ہوئے ہیں۔
مسلمانوں کا خلیفہ اور دنیا کے بادشاہوں میں سب سے بڑا حکمران سلیمان بن عبد الملک بھی بارگاہ رب العالمین میں حاضر ہے۔ وہ کعبہ شریف کا طواف اس حال میں کر رہا ہے کہ سر ننگا ہے، پائوں جوتے کے بغیر ہیں، اس کے جسم پر دو چادروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایک چادر اس نے ازار کے طور پر باندھ رکھی ہے، جب کہ دوسری کو اس نے اپنے بدن پر اوڑھ رکھا ہے۔ اس وقت خلیفہ کی حالت وہی ہے، جو اس کی رعایا کے کسی عام فرد کی ہے۔ یہ سب خدا کی خاطر ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ اس کے پیچھے پیچھے اس کے دو بیٹے بھی ہیں۔ وہ اپنی چمک دمک اور چہروں کی رونق سے چودھویں کے چاند لگ رہے تھے اور اپنے حسن منظر اور خوشبو میں گلاب کی پنکھڑیاں نظر آرہے تھے۔
خلیفہ جیسے ہی طواف سے فارغ ہوا، اس نے اپنے خاص آدمیوں میں سے ایک کی طرف جھکتے ہوئے اس سے سرگوشی کی: تمہارا وہ ساتھی کہاں ہے؟ جناب عالی! وہ تو سامنے اس جگہ نماز ادا کر رہا ہے، اس نے مسجد کے مغربی کونے کی طرف اشارہ کیا۔ جس طرف اشارہ کیا گیا تھا، خلیفہ اس طرف متوجہ ہوا، اس کے پیچھے دونوں شہزادے بھی تھے۔ خلیفہ کے حاشیہ برداروں نے لوگوں کو ہٹانے اور خلیفہ کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کی تو سلیمان نے انہیں روکا اور کہا:
رک جائو! یہ وہ مقام ہے، جہاں بادشاہ اور عام آدمی میں کوئی فرق نہیں ہوتا، یہاں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔ ہاں اسے فضیلت حاصل ہے جس کا عمل مقبول ہو اور جو متقی ہو۔ کتنے ہی غبار آلود بکھرے بالوں والے ایسے ہیں، جن سے حق تعالیٰ وہ کچھ قبول کرلیتا ہے، جو بادشاہوں سے قبول نہیں کرتا، پیچھے ہٹ جائو۔ لوگوں کو تنگ نہ کرو۔
خلیفہ اس آدمی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ بدستور اپنی نماز میں ہے اور نہایت خشوع و خضوع سے رکوع وسجود میں مشغول ہے۔ لوگ اس نمازی کے پیچھے اور دائیں بائیں بڑی کثرت سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ خلیفہ بھی مجلس کے آخری حصے میں جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا اور اس کے بیٹے بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوا تو وہ ایک کالا بھجنگ حبشی تھا، گھنگریالے بالوں والا، چوڑی ناک والا، جب وہ بیٹھا تو یوں لگ رہا تھا جیسے کالا کوا ہو۔ اس نے دائیں جانب متوجہ ہو کر دیکھا تو خلیفہ بھی لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۔ خلیفہ نے اسے سلام کیا۔ اس نے بھی اسی طرح جواب دیا۔ اب خلیفہ آگے ہوا اور اس نے حج کے مناسک کے بارے میں ایک ایک مسئلہ پوچھنا شروع کیا۔ وہ بڑی تفصیل سے ہر مسئلہ کا جواب دے رہے ہیں۔ ان کے جواب کے بعد کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی۔ وہ جو بات بھی کہتے ہیں، اس کو رسول اقدسؐ کے فرامین سے مزین کرتے اور ہر مسئلے کی دلیل ذکرکرتے ہیں۔ جب خلیفہ کے سوالات ختم ہو گئے تو وہ اٹھے اور انہوں نے بیٹوں سے کہا: اٹھو بیٹا! چلیں، وہ تینوں اٹھے اور مسعیٰ کی جانب چل دیئے۔ ابھی وہ صفا مروہ کی طرف راستے ہی میں تھے کہ بیٹوں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی: اے مسلمانو! غور سے سنو:
اس مقام میں کوئی شخص عطاء بن ابی رباحؒ کے سوا فتویٰ جاری نہ کرے۔ اگر وہ میسر نہ ہوں تو پھر ابن ابی نجیحؒ فتویٰ دیا کریں گے۔ دونوں بیٹوں میں سے ایک نے والد سے سوال کیا:
ابا جان! امیر المؤمنین کا گورنر اعلان کرتا ہے کہ ان دونوں کے سوا کوئی فتویٰ نہ دے اور ہم فتویٰ لینے کے لیے ایک ایسے شخص کے پاس آتے ہیں جو تو خلیفہ کی پروا کرتا ہے نہ ان کے لیے مناسب تعظیم کا اظہار کرتا ہے۔ خلیفہ سلیمان بیٹے سے کہتا ہے:
میرے بچے! جس شخص سے ہم نے مسائل پوچھے اور جس کے سامنے آپ نے ہماری کمزوری دیکھی، وہ عطاء بن ابی رباحؒ ہی تو تھے۔ وہ مسجد حرام کے سب سے بڑے مفتی اور اس عظیم منصب پر سیدنا ابن عباسؓ کی مسند کے وارث ہیں۔
خلیفہ نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا: میرے بچو! علم حاصل کرو کہ علم ہی کے ذریعے نچلے درجے کے لوگ عزت وشرف کے اعلیٰ مراتب حاصل کرلیتے ہیں اور گمنام لوگ معروف ہو جاتے ہیں اور اسی کے ذریعے غلام بادشاہوں کے مراتب تک جا پہنچتے ہیں۔ (صور من حیاۃ التابعین)