معارف و مسائل
دوسری رئویت کا تذکرہ آگے سورئہ نجم ہی کی آیت وَلَقَد رَاٰہُ… میں آیا ہے، جو شب معراج میں ہوئی، مذکور الصدر وجوہ کی بنا پر عام مفسرین حضرات نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے، ابن کثیرؒ کا مضمون تو ابھی اوپر گزرا ہے، قرطبی، ابو حیان، امام رازی وغیرہ عموماً اسی تفسیر کو ترجیح دے رہے ہیں، سیدی حضرت حکیم الامت نے بھی اسی کو اختیار فرمایا ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر کے عنوان میں بیان ہو چکا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ سورئہ نجم کی ابتدائی آیات میں حق تعالیٰ کی رئویت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ رئویت جبرئیل (علیہ السلام) مذکور ہے، نووی نے شرح مسلم میں اور حافظ نے فتح الباری میں بھی یہی تفسیر اختیار فرمائی ہے۔
ذُوْ مِرَّۃٍ… الخ: مرہ کے معنی قوت کے ہیں، یہ بھی جبرئیل امینؑ کی دوسری صفت قوت و طاقت کی زیادتی بیان کرنے کے لئے ہے، تاکہ کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ وحی لانے والے فرشتے کے کام میں کوئی شیطان دخیل ہو سکتا ہے، کیونکہ جبرئیل امین اتنے قوی ہیں کہ شیطان ان کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتا اور فاستویٰ کے معنی ’’برابر ہو گئے‘‘ مراد یہ ہے کہ اول جب جبرئیل امینؑ کو دیکھا تو وہ آسمان سے اتر رہے تھے، اترنے کے بعد افق بلند پر مستوی ہو کر بیٹھ گئے، افق کے ساتھ اعلیٰ کی قید میں یہ حکمت ہے کہ افق کا وہ حصہ جو زمین کے ساتھ ملا ہوا نظر آتا ہے، وہ عموماً نظروں سے مخفی رہتا ہے، اس لئے افق بلند پر جبرئیل امینؑ کو دکھلایا گیا۔
ثُمَّ دَنَا… الخ: دنی کے معنی ’’قریب ہوگیا‘‘ اور تدلی کے لفظی معنی ’’لٹک گیا‘‘ مراد جھک کر قریب ہو جاتا ہے۔ فَکَانَ قَابَ قَوسَینِ… قاب، کمان کی لکڑی جہاں دستہ پکڑنے کا ہوتا ہے اور اس کے مقابل کمان کی ڈور (تانت) ہوتی ہے، ان دونوں کے درمیانی فاصلے کو قاب کہا جاتا ہے، جس کا اندازہ تقریباً ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے، قاب قوسین، یعنی دو کمانوں کی قاب فرمانے کی وجہ عرب کی ایک خاص عادت ہے کہ دو آدمی اگر آپس میں معاہدہ صلح اور دوستی کا کرنا چاہتے تو جیسی اس کی ایک علامت ہاتھ پر ہاتھ مارنے کی معروف مشہور ہے، اسی طرح دوسری علامت جس سے دوستی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا یہ تھی کہ دونوں شخص اپنی اپنی کمانوں کی لکڑی تو اپنی طرف کرلیتے اور کمان کی ڈور دوسرے کی طرف، اس طرح جب دونوں کمانوں کی ڈوریں آپس میں مل جاتیں تو باہمی قرب و مودت کا اعلان سمجھا جاتا تھا، اس قرب کے وقت ان دونوں شخصوں کے درمیان دونوں قوسوں کے قاب کا فاصلہ رہتا تھا، یعنی تقریباً دو ہاتھ ( یا ایک گز) اس کے بعد ’’او ادنیٰ‘‘ کہہ کر یہ بھی بتلا دیا کہ یہ قرب و اتصال عام رسمی اتصال کی طرح نہیں تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ تھا۔
آیات مذکورہ میں جبر ئیل کا بغایت قریب ہو جانا اس لئے بیان فرمایا گیا کہ یہ ثابت ہو جاوے کہ جو وحی انہوں نے پہنچائی ہے اس کے سننے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور یہ کہ اس قرب و اتصال کی وجہ سے یہ بھی احتمال نہیں رہا کہ رسول اقدسؐ جبرئیل امین کو نہ پہچانیں اور کوئی شیطان مداخلت کر سکے۔(جاری ہے)