قربانی کے احکام ومسائل

قربانی کے جانور کی رسی صدقہ کردینا مستحب ہے اور اگر فروخت کردی تو اس کی قیمت صدقہ کردینا واجب ہے اور اگر رسی خود استعمال کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اور اگر کسی کو ہدیہ میں دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
جس آدمی پر قربانی واجب ہے، اگر وہ قربانی کیلئے رقم کسی اور ملک میں بھیج دے اور کسی کو قربانی کرنے کیلئے کہہ دے، تو اس طرح رقم بھیج کر دوسرے ممالک میں قربانی کرنا درست ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ اتنی بات ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو یعنی جس دن قربانی کی جائے گی وہ دن دونوں ممالک میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔ مثلاً سعودی عرب میں پاکستان کے حساب سے ایک دن پہلے قربانی شروع ہوتی ہے اور پاکستان میں سعودی عرب سے ایک دن بعد، تو سعودی عرب میں رہنے والے آدمی کی قربانی پاکستان میں پہلے اور دوسرے دن کرنا صحیح ہوگا تیسرے دن نہیں، کیونکہ پاکستان کا تیسرا دن سعودی عرب کے حساب سے قربانی کا دن نہیں، اس طرح اگر پاکستان میں رہنے والے آدمی کی قربانی سعودی عرب میں کی جارہی ہے تو سعودی عرب کے پہلے دن میں پاکستان کے آدمی کی قربانی کرنا صحیح نہیںہوگا، کیونکہ یہ دن پاکستان کے حساب سے پاکستان میں رہنے والوں کے لئے قربانی کا دن نہیں ہے، لہٰذا دوسرے اور تیسرے دن میں کی جائے۔
ذبح کرتے وقت جانور کے گلے کو یہاں تک کاٹے کہ چار رگیں کٹ جائیں جو نرخرے کے داہنے اور بائیں ہوتی ہیں، اگر ان میں سے تین ہی کٹ گئیں، تب بھی ذبح درست ہے اور اس کا کھانا حلال ہے اور اگر دو ہی رگیں کٹیں تو جانور مردار اور اس کا کھانا حرام ہے اور اگر بھول جائے تو کھانا درست ہے۔
جس جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو جس کی وجہ سے وہ چارہ گھاس وغیرہ نہ کھا سکے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ اگر جانور کو مارنے سے اس کے بدن پر زخم ہو گیا تو اس کی قربانی درست ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ ایسے جانور کی قربانی نہ کرے۔ زندہ جانور کا کوئی عضو کاٹنا ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا ذبح کے بعد جانور جب تک ٹھنڈا نہ ہوجائے، تب تک اس کا کوئی عضو الگ نہ کیا جائے، ورنہ وہ عضو کھانا جائز نہیں ہوگا۔ جانور ذبح کرنے کے بعد ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کا سر الگ کرنا مکروہ ہے، مگر ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت حلال ہے۔
سینگ: جس جانور کے پیدائش سے سینگ نہیں یا سینگ تو تھے، مگر ٹوٹ گئے، اس کی قربانی درست ہے، البتہ اگر سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں تو قربانی درست نہیں ہے۔ اگر سینگ کے اوپر کا خول اتر گیا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔ اگر سینگ اکھڑ گئے ہوں اور چوٹ کا اثر دماغ تک پہنچ گیا ہو تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔
اگر شرکا میں سے کسی ایک شریک نے جانور ذبح کرنے کی اجازت نہیں دی اور وکیل بھی مقرر نہیں کیا اور دوسرے نے خود جانور کو ذبح کردیا اور کچھ شرکا کو خبر بھی نہیں تو اس سے کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔
قربانی کے جانور میں اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا، جس پر قربانی واجب تھی اور وہ پھر ذبح سے پہلے شرکت سے علیحدہ ہوگیا اور دوسرا آدمی اس کی جگہ شریک ہوگیا، تو قربانی ہوجائے گی۔ قربانی کے جانور میں اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا جس پر قربانی واجب نہ تھی، وہ اگر ذبح کرنے سے پہلے علیحدہ ہو جائے تو اس پر قربانی واجب رہ جائے گی اور اس جانور کے شرکا کی قربانی بھی درست نہ ہوگی۔
اگر بڑے جانور میں متعدد افراد شامل ہیں تو ہر فرد کو اپنے حصے کے مطابق پیسہ دیدینا چاہئے، تاہم اگر کوئی شریک خوشی سے دوسرے کی طرف سے کوئی پیسہ زیادہ دیدے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔
کسی جانور کی خریداری کے وقت کسی کو شریک کرنے کی نیت کی ہے یا نہیں کی، دونوں صورتوں میں اگر خریدار مالدار ہے تو دوسرے لوگوں کو شریک کرسکتا ہے اور اگر خریدار مالدار نہیں بلکہ فقیر ہے، تو اس صورت میں اگر جانور خریدتے وقت کسی اور آدمی کو شریک کرنے کی نیت تھی تو دوسرے آدمی کو شریک کرسکتا ہے اور اگر جانور خریدتے وقت کسی اور آدمی کو شریک کرنے کی نیت نہیں تھی تو خرید نے کے بعد کسی اور آدمی کو شریک نہیں کرسکتا۔ بیوی کی طرف سے قربانی کرنا شوہر پر لازم نہیں، البتہ شوہر بیوی کی اجازت سے اس کی قربانی کرسکتا ہے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment