محمد شاہد
عید قرباں قریب آتے ہی پشاور غیر قانونی مویشی منڈیوں کا گڑھ بن گیا۔ بیوپاری ٹیکسوں اور پرچیوں سے بچنے کیلئے شہر بھر میں جگہ جگہ قربانی کے جانور فروخت کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب مویشیوں کی افغانستان برآمد پر پابندی کے باوجود پشاورسمیت صوبہ بھر میں جانوروں کی قیمتیں انتہائی چڑھی ہوئی ہیں۔ جس کے سبب اس سال پشاور سمیت صوبے کے بیشتر علاقوں میں زیادہ تر لوگوں نے اجتماعی قربانی میں حصہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیبر پختون کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں رنگ روڈ، چار سدہ روڈ، لالہ کلے، بڈھنی، اکبر پورہ، بڈھ بیر، سربند اور پلوسی کے مقام پر سرکاری سطح پر مویشی منڈیاں لگائی گئی ہیں، تاہم یہاں جانوروں کی قیمتیں زیادہ ہونے کے سبب خریدار منڈیوں سے خالی ہاتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال جانوروں کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہیں۔ جو بڑا جانور گزشتہ سال 40 سے 50 ہزار روپے تک مل رہا تھا، اس بار اس کی قیمت 70 سے 80 ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ جبکہ دنبے اور بکرے کی قیمت بھی 40 ہزار سے کم نہیں۔ 20 سے25 ہزار روپے میں کمزور بکرے اور دنبے مل رہے ہیں۔ دوسری جانب سرکاری مویشی منڈیوں میں داخلے کیلئے ٹیکسوں اور پرچیوں سے بچنے کیلئے مویشی مالکان اور بیوپاریوں نے شہری علاقوں میں جگہ جگہ ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ شہر میں کوہاٹی، یکہ توت، گنج، باچا خان چوک، چارسدہ روڈ، فقیر آباد، دلہ زاک روڈ اور شاہی باغ روڈ سمیت متعدد علاقوں میں غیر قانونی منڈیاں لگنا شروع ہوگئی ہیں۔ یہاں موجود بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ وہ سرکاری منڈیوں میں ٹیکسوں اور پرچیوں کی بھرمار کی قجہ سے جانور نہیں لے جارہے۔ جانور فروخت کرنے سے پہلے منڈیوں کے ٹھیکیدار زبردستی پرچیاں بنواتے ہیں، جبکہ جانور کھڑے کرنے کے ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔ بیوپاریوں کے بقول وہ چار پانچ تک جانور فروخت کیلئے لاتے ہیں۔ اگر اس پر بھی بھاری بھرکم ٹیکس لگا دیا جائے، زبردستی پرچیوں کے نام پر پیسے وصول کئے جائیں تو انہیں کیا بچے گا۔ پھر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ساتھ ہی جانوروں کا چارہ بھی مہنگا ہو گیا ہے۔ اس لئے وہ منڈیوں کے بجائے شہر میں لاکر جانور فروخت کر رہے ہیں۔ شہر بھر میں مویشی منڈیوں کے قیام سے جہاں گندگی بڑھ رہی ہ، وہیں ٹریفک جام کے مسائل کا بھی شہریوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ضلعی ناظم پشاور محمد عاصم خان نے ڈپٹی کمشنر پشاور اور چاروں ٹائونز کے ٹی ایم اوز کو مراسلے جاری کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں سڑک کنارے قائم غیر قانونی مویشی منڈیوں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ ضلعی ناظم کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی کی وجہ سے پہلے ہی سے شہری ٹریفک کے مسائل سے دو چار ہیں، غیر قانونی مویشی منڈیاں مزید ذہنی اذیت کا باعث بن رہی ہیں۔ چونکہ ان غیر قانونی مویشی منڈیوں کے باعث ٹریفک کی روانی میں شدید خلل پڑ رہا ہے، اس لئے ان منڈیوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور مستقل اہلکار تعینات کرکے ٹریفک کی روانی کو یقینی بنایا جائے۔ ضلعی ناظم نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ غیر قانونی مویشی منڈیوں کے بجائے سرکاری منڈیوں سے خریداری کریں، تاکہ غیر قانونی مویشی منڈیوں کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔ تاہم ضلعی ناظم کے احکامات کے باوجود شہر کے کئی علاقوں میں غیر قانونی مویشی منڈیاں سجی ہوئی ہیں۔ مویشی فروخت کرنے والے افراد پولیس اور دیگر اہلکاروں کی نظروں سے بچنے کیلئے بعض اوقات جانوروں کو گلی محلوں کے اندر بھی لے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے شہر میں صفائی کی صورت حال خراب ہو رہی ہے۔ دوسری جانب پشاور سمیت صوبہ بھر میں نگران حکومت کی جانب سے مویشیوں کی افغانستان برآمد پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود جانوروں کی قیمتوں میں کمی نہیں آ سکی۔ معلوم ہوا ہے کہ افغانستان سے متصل پاکستان کے طورخم اور صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع جن کی سرحدیں افغانستان سے لگی ہوئی ہیں اور جہاں کے غیر معروف راستوں سے گزشتہ ادوار میں عید الاضحیٰ کے دنوں میں جانوروں کی آمد و رفت لگی رہتی تھی، وہاں سے بھی مویشی افغانستان نہیں جارہے ہیں اور نہ افغانستان سے قربانی کے چھوٹے جانور پاکستان لائے جارہے ہیں۔ بلوچستان کے چمن بارڈر اور دیگر علاقوں سے بھی چھوٹے جانوروں کی افغانستان سے ترسیل بند ہے، جس کی وجہ سے خیبرپختون اور بلوچستان میں اس سال دنبے اور بکروں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان سے جانوروں کے علاوہ مختلف قسم کے پھلوں اور سبزیوں کی بھی افغانستان برآمد پر پابندی ہے، جس کے اثرات افغانستان کے بیشتر علاقوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ افغانستان کے مختلف شہروں میں بھی جانور مہنگے ہوگئے ہیں، جبکہ سبزیوں اور پھلوں سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی خاصا اضافہ ہو گیا ہے۔ ادھر پشاور میں بھی ضلعی انتظامیہ پھلوں کی قیمتوں میں استحکام نہیں لا سکی اور نہ سبزیوں سمیت دیگر اشیائے خور و نوش مقررہ نرخوں پر فروخت کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے جانوروں سمیت دیگر اشیا کی افغانستان برآمد پر پابندی عائد کر کے اچھا اقدام کیا ہے اور اس کے بعد یہاں پر شہریوں کو ریلیف ملنا چاہئے تھا۔ لیکن انتظامیہ کی نااہلی کے باعث شہریوں کو مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب پشاور کی منڈیوں میں بیمار جانوروں کی فروخت بھی شروع ہو گئی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے منڈیوں میں ڈاکٹر نہیں بھیجے جا رہے۔