صدر ممنون نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا

امت رپورٹ
صدر ممنون حسین کے حوالے سے یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ لیکن لیگی ذرائع کے مطابق ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں۔ بلکہ صدر مملکت ممنون حسین نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا، لیکن نہ صرف پارٹی صدر شہباز شریف نے ایسا کرنے سے منع کیا، بلکہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کا پیغام بھی پہنچایا کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کریں۔ ذرائع نے بتایا کہ صدر ممنون حسین کو ان کے قانونی اور سیاسی مشیروں نے بھی مستعفی ہونے سے منع کیا ہے اور کہا کہ ان کی صدارت کی مدت ستمبر میں پوری ہو رہی ہے اور وہ باعزت طریقے سے اپنے عہدے سے ریٹائر ہوں۔ ذرائع کے بقول ممنون حسین نے سابق صدر زرداری کے برعکس ایوان صدر کو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز نہیں بننے دیا۔ انہوں نے اپنی غیر جانبداری اس حد تک رکھی کہ نون لیگ کے سیاسی مخالفین نے بھی ان پر کوئی الزام نہیں لگایا۔ ذرائع کے مطابق صدر ممنون حسین نے نواز شریف کی خوشنودی کی خاطر کہا تھا کہ وہ نئے وزیر اعظم کے حلف کے موقع پر ملک میں نہیں رہیں گے، جبکہ ان کا دورہ بھی طے ہو چکا تھا۔ لیکن وزیر اعظم سے حلف لینا صدر کی آئینی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے، جسے پورا کرنا صدر کا فرض ہے۔ گورنر سندھ محمد زبیر کا استعفیٰ صدر مملکت ممنون حسین نے منظور کرلیا جس کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے یہ خبر اڑائی کہ گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ان (محمد زبیر) کے ذریعے صدر مملکت کو یہ پیغام بھجوایا کہ وہ صدرات کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ اور یہ کہ گورنر پنجاب رفیق رجوانہ اور گورنر خیبرپختون اقبال ظفر جھگڑا نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن ذرائع کے بقول سابق گورنر سندھ کی ان خبروں میں کوئی حقیقت ہی نہیں۔ کیونکہ پنجاب اور خیبر پختون کے گورنروں نے خود نواز شریف سے علیحدگی میں ملاقات کی تھی۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے گورنر پنجاب رفیق رجوانہ اور گورنر خیبرپختون اقبال ظفر جھگڑا کو بھی یہ پیغام دیا کہ وہ بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں اور نواز شریف نے بھی پیغام دیا ہے کہ آپ لوگ بھی اپنے استعفے صدر مملکت کو بھجوا دیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اقبال ظفر جھگڑا اوررفیق رجوانہ کا نواز لیگ کے ساتھ تعلق، محمد زبیر کی بہ نسبت برسوں پرانا ہے۔ وہ نون لیگ کے اچھے برے کو محمد زبیر سے بہتر جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رفیق رجوانہ نے محمد زبیر کو جواب دیا کہ چونکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے، لہٰذا وہ فوری طور پر اس عہدے سے استعفیٰ نہیں دے رہے۔ جبکہ گورنر خیبرپختون اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ نئے وزیر اعلیٰ سے حلف لینے سے پہلے استعفیٰ دینا مناسب نہیں ہو گا۔ ذرائع کے بقول ان گورنروں نے محمد زبیر کی باتوں کی تصدیق کیلئے نواز شریف سے ملاقات کی تو معاملہ کچھ اور ہی نکلا۔ واضح رہے کہ صدر مملکت ممنون حسین کو مسلم لیگ (ن) نے ستمبر 2013ء میں آصف زرداری کی مدت صدارت پوری ہونے پر صدر پاکستان منتخب کروایا تھا۔ اس وقت سابق وزیر خارجہ سرتاج عزیز بھی مضبوط امیدوار کے طور پر موجود تھے، تاہم میاں نواز شریف نے ممنون حسین کو صدر مملکت بنانے کا فیصلہ کیا، جن کی مدت 9 ستمبر 2018ء کو پوری ہو رہی ہے۔ رفیق رجوانہ کو تحریک انصاف کے رہنما و سینیٹر چوہدری محمد سرور کے گورنر پنجاب کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد پنجاب کا گورنر بنایا گیا اور ان کے بیٹے کو ملتان سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کا الیکشن بھی لڑوایا گیا۔ اقبال ظفر جھگڑا جو مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے ہیں، انہیں سابق گورنر مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار مہتاب احمد خان کے استعفے کے بعد گورنر بنایا گیا تھا۔ معتبر لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ممنون حسین پر میاں نواز شریف کو اعتبار ہے، اور انہوں نے کبھی بھی میاں نواز شریف کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ صدر ممنون نے نواز شریف کی پمز آمد پر ان سے ملاقات کی کوشش کی تو انہیں سیکورٹی کا بہانہ بنا کر ملنے سے روک دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ممنون حسین کا معاملہ سابق صدر رفیق تارڑ جیسا نہیں ہے۔ رفیق تارڑ برسوں شریف خاندان کے ذاتی وکیل رہے۔ لیکن جب پرویز مشرف نے جمہوری حکومت پر شب خون مارا تو رفیق تارڑ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ یہاں تک کہ انہیں برطرف کر کے پرویز مشرف خود صدر بن بیٹھے تھے۔ جبکہ اس بار حالات بالکل مختلف ہیں۔ نواز شریف کے خلاف عدالت نے فیصلہ دیا، لیکن پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی۔ ذرائع کے مطابق صدر ممنون حسین کو بعض حلقوں کی جانب سے متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ دوسری جانب 15 اگست کو نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نومنتخب اراکین قومی اسمبلی سمیت پارلیمنٹ کے دیگر اراکین نے عدالت کے باہر موجود رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ حلف برداری کے دن نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں عدالت لایا گیا تھا، جس پر نواز لیگ کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں اراکین نے حلف برداری کے دوران نواز شریف کے حق میں احتجاج نہ کرنے پر شہباز شریف کے سامنے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اجلاس میں لیگی اراکین کا کہنا تھا کہ الیکشن میں مرکزی رہنمائوں نے پارٹی مہم پر توجہ دینے کے بجائے اپنے حلقوں پر توجہ دی، جس سے پارٹی کو نقصان پہنچا۔ شہباز شریف صاحب اپنے دائیں بائیں بیٹھے نااہل لوگوں کے خلاف ایکشن لیں۔ نواز شریف ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں، ان کیلئے موثر مہم چلائی جائے۔ اجلاس میں ایک خاتون رکن نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر ہم باہر نہیں نکلے، اور یہ ہمارے لیے بڑے شرم کی بات ہے۔ جواباً شہباز شریف نے کہا کہ ابھی احتجاج کا وقت نہیں آیا۔ وزیرِ اعظم کے انتخاب کے موقع پر ارکان کی رائے کا احترام کریں گے۔ ذرائع کے بقول نواز لیگ کے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے سو سے زائد ارکان کی جانب سے احتجاج میں شرکت کی توقع ہے، جس کا پلان ترتیب دے دیا گیا ہے۔ جبکہ پنجاب اسمبلی سے بھی کچھ ارکان آئیں گے۔ یہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپنی سیاسی اور عوامی طاقت کا اظہار ہوگا۔

Comments (0)
Add Comment