دلی کا گھر وزیر خانم کو کاٹے کھاتا تھا

قسط نمبر: 203
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
وزیر خانم کا دل رنج سے بھرا ہوا تھا۔ وہ رامپور سے شاہ محمد آغا اور نواب مرزا کو لے کر یہاں چلی تو آئی تھی، لیکن دلی کا گھر اور شاہجہاں آباد کا شہر اسے کاٹے کھاتے تھے۔ باپ ماں کی پرانی یادیں اور بچپن کے دنوں کی بے فکریوں اور ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتے ہوئے اور نئی نئی بہاریں لاتے ہوئے اپنے عشوہ و ناز و ادا کی یادیں، وہ چاہنے والوں کا ہجوم اور اس کے دل میں شوق ستم رانی کا جوش اور پھر مارسٹن بلیک کے گزر جانے کے بعد نواب شمس الدین احمد کی بے قراریاں اور نواب کی شہادت اور اپنی بے کسی۔ یہ سب یادیں اس کے پردہ ذہن پر اوراق مصور کی طرح روشن تھیں۔ بیک وقت دل کو ناکامی کے لہو سے بھر دینے والی اور جو نہ ہو سکا اس کے ہونے کی تمنا کی کھٹک دل میں ڈالنے والی خوشگوار یادوں کے ساتھ بھی اس قدر افسوس اور دلگیری اور کڑھن وابستہ ہو سکتی ہے، اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔ گلاب کو بے خیالی سے توڑنا چاہیں تو کانٹا چبھ کر احتجاج کرتا ہے کہ ہمارے پھول کو اتنا سرسری کیوں پکڑا۔ لیکن یہاں تو گلاب ہی کانٹا تھا اور اس کی پر پنکھڑی ماضی کے رنگ و خوشبو میں غرق تھی، لیکن اسے چھوئیں تو وہ بچھو پودے کی طرح ڈنک مارتی تھی۔ اور کیسے نہ چھوئیں، کہ اس کی خوشبو ہر سانس کے ساتھ تھی اور اس کا رنگ ہر نگاہ کے اندر تھا۔
ایسے عالم میں وزیر کو دہلی میں رہنا گوارا نہ تھا۔ لیکن رامپور بھی رہنے کے قابل کب تھا۔ منجھلی باجی کے سر پر وہ کتنا اور کس کس کا بوجھ ڈالتی۔ ایک وہ خود اور تس پر دو بچے کہ دونوں ہی اپنے اپنے عالم میں بڑھتے ہوئے پودوں کی طرح تھے کہ ہر دم دیکھ ریکھ اور کھاد پانی کا تقاضا کرتے تھے۔ اور کیا رامپور کی یادیں دلی کی یادوں سے کچھ بہت ہٹ کر تھیں؟ دلی جتنی گہری اور شاخ در شاخ نہ سہی، لیکن رامپور سے وابستہ یادوں کی بھی جڑیں مضبوط تھیں اور ان کے پھل پھول بھی بیک وقت کڑوے اور میٹھے تھے۔ جب وہ رام پور سے چلی تو اسے ایسا لگا جیسے کسی جیتے سانس لیتے پودے کو پانی اور سائے سے یک قلم و یکلخت محروم کر دیا گیا ہو۔ لیکن خود اس پودے کے سائے میں افعیوں کی بھی بانبیاں تھیں اور وہ افعی اسے صبح و مسا ڈستے بھی تھے۔
اللہ کی شان کہ ایسا باغ جو بظاہر تو کبھی خزاں آشنا ہو ہی نہ سکتا ہو، بار بار خزاں کی بھوری سیاہ آنکھیں اس پر پڑیں اور اس کی ہواؤں کو مسموم کر دیں۔ جن ہواؤں کے دوش پر نوجوان بلبلوں کے نغمے ہمکتے اٹکھلیاں کرتے باغ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اڑے پھرے ہوں، اب وہ ہوائیں خود ماتمی ہو جائیں۔ وہ گل رعنا اور گل یاسمن اور گل مسثکیجہ جن کی نازک چلبلی اداؤں پر باغ کے فوارے سر پٹکتے تھے اور نہروں کے اندر موجیں بے قرار ہوتی تھیں، اب سر جھکائے اپنے وجود پر رنج کناں ہوں۔ وزیر نے آئینہ دیکھنا اور بالوں میں کنگھی کرنا چھوڑ
دیا تھا۔ بتیس تینتیس سال کی عمر میں اکثر عورتیں بوڑھی ہوجاتی تھیں، بالخصوص اگر وہ بار بار ماں بن چکی ہوں۔ لیکن وزیر کے منہ پر نرمی اور بھولا الہڑ پن ویسا ہی تھا۔ چہرے پر ایک شکن نہ تھی۔ لیکن وزیر کو اپنا روپ سروپ ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ اب تک اسے اس روپ نے کیسے کیسے کڈھب گھاٹ دکھائے تھے، جو اب اس کی کشتی حیات کو مصئون کسی ساحل پر لے جائے گا۔ اسے میر تقی صاحب کے شعر یاد آئے
مستوری خوبروئی ہر گز نہ جمع ہوویں
خوبی کا کام کس کی اظہار تک نہ پہنچا
یوسف سے لے کے تا گل پھر گل سے لے کے تا شمع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا
ہونھ، بھلا میر صاحب کو بسنت کی کیا خبر تھی۔ شاعروں کا کیا ہے، بس مضمون باندھتے رہئے۔ مجھے مستوری خود ہی منظور نہ تھی، پر مجھے بکاؤ مال تقدیر کے بازار کا بننا حاشا منظور نہ تھا۔ جاتی میری جوتی بازار میں۔ لیکن میں تو مردوں کے بازار میں جائے بغیر ہی رسوا ہوگئی۔ شاید انجام ہر صورت میں ایک ہے۔ بلیک صاحب کبھی کہتے تھے کہ ان کے کسی بہت بڑے شاعر نے لکھا ہے کہ یہ انسان کیا ہے، دیوی دیوتاؤں کے سامنے ویسا ہی ہے جیسے شوخ بچوں کے سامنے تتلیاں، کہ وہ انہیں پکڑتے ہیں اور کھیل کھیل میں بال بازو ان کے نوچ ڈالتے ہیں، جان ان کی لے لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں دیوی دیوتا نہیں ہیں لیکن ہندوؤں کے یہاں تو ہیں۔ شاید تقدیر کو یہ لوگ دیوی دیوتا کہتے ہوں۔ میری ساری کوشش کہ اپنی زندگی کی راہیں خود متعین کروں…۔ اب بھی یہی کوشش ہے شاید؟ لیکن اس وقت تو بس ان دو بچوں کے لئے جینا ہی سب سے سیدھی اور سچی راہ لگتی ہے۔
اے لو راہ کے نام پر میر صاحب کا ایک اور شعر یاد آگیا۔ کیا رونگٹے کھڑے کرنے والی بات کہی ہے، جیسے خوبی کے کام کے اظہار تک پہنچنے والے شعر کا جواب کہا ہے۔
پہلا قدم ہے انساں پامال مرگ ہونا
کیا جانے رفتہ رفتہ کیا ہو مآل تیرا
پامال مرگ ہونے کے بعد بچا ہی کیا ہوگا، جو مآل کی باتیں ہوں۔ زندگی مر مر کے جئے جانے ہی کو کہتے ہیں۔ شاید پیدا ہونا موت سے بھی بدتر ہے کہ تم پیدا ہی نہیں ہوئے ہو، مر گئے ہو۔ لیکن اس موت میں بھی لذتیں کیا کیا ہیں راحتیں کیا کیا۔
اسے کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ شاید شاہ محمد آغا دوپہر کی نیند سے جاگ پڑے ہیں۔ وہ ہڑبڑاکر اٹھی۔ حجرے میں گئی تو بچے کو گہری نیند میں پایا۔ شاید کوئی اور بچہ رہا ہو یا شاید مجھے یوں ہی وہم ہوا ہو۔ پاس کی پلنگڑی پر حبیب النسا سکڑی پڑی سو رہی تھی۔ گھر میں صرف ایک خادمہ اور تھی۔ باہر کا کام کرنے کے لیے محلے کا ایک لونڈا صبح شام آجاتا تھا۔ اسے وہ دن یاد آئے جب گھر میں ہر طرف نوکر ہی نوکر تھے۔ اسے ان دونوں کی آسائش و تعین کے جاتے رہنے کا اتنا افسوس نہ تھا، جتنا اس اہتزاز و سرمستی کے اڑ جانے کا جو نواب شمس الدین احمد کی محبت میں اسے ملی تھی، اور پھر وہ گھر کی چہل پہل، وہ ہر روز کا نئی امیدوں کے ساتھ طلوع ہونا…۔ لیکن وہ جلسہ کس قدر جلد درہم برہم بھی تو ہوگیا۔
کیا اسے نواب مرزا سے امیدیں تھیں کہ وہ اس کی تنہائی کا مداوا اور اس کے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے؟ اور شاہ محمد آغا؟ ان کے تو بڑے ہوتے ہوتے میں دنیا ہی سے چل بسوں گی۔ اب تو جو کچھ ہے اور جو کچھ ہوگا، وہ نواب مرزا ہی کے دم سے ہے اور انہیں کے دم سے ہوگا۔ لیکن اب اور کیا ہونا ہے؟ اب اور بچا ہی کیا ہونے کو؟ کیا اب بھی مجھے زندگی سے اور معاملہ حسن و عشق سے کچھ توقعات ہیں؟ حکیم جی نے کیا خوب کیا ہےایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بسایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گےلیکن نہیں، کیا وہ سارا قصہ چاہنے اور چاہے جانے کی بھول بھلیاں تھا؟ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment