قسط نمبر 87
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
ان دونوں کے ساتھ نوک جھونک میں سفر خوش گوار گزر رہا تھا۔ ہم جس بوگی میں سوار تھے، اس میں مسافروں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ لہٰذا ہمیں اپنی گفتگو میں احتیاط برتنے کی زیادہ ضرورت نہیں پڑی۔ لیکن لگ بھگ پانچ گھنٹے بعد جب ٹرین متھرا اسٹیشن رکی تو ہماری بوگی کھچا کھچ بھرگئی اور دو خواتین اور ایک ادھیڑ عمر شخص پر مشتمل ایک ہندو گھرانے کی ہمارے کیبن میں آمد کے بعد ہماری گفتگو کا سلسلہ انتہائی محدود ہوگیا۔ ہمارے تینوں ہم سفر دیہی مہاراشٹر سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی مراٹھی زبان میں گفتگو ہمارے قطعاً پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ تاہم ضروری نہیں تھا کہ وہ بولی سے بھی ناواقف ہوں۔ آمنہ نے کسی روایت پسند مسلمان خاندان کی بہو کی طرح باقاعدہ گھونگھٹ تو نہیں نکالا، تاہم وہ اپنی ساس سے بات چیت تک محدود ہوگئی تھی۔ وہ دونوں کھانا پکاکر ساتھ لائی تھیں، البتہ ’’مسلمان پانی‘‘ مجھے آگرا کے ریلوے اسٹیشن سے لے کر آنا پڑا۔
رات ہونے پر وہ دونوں ساس بہو باری باری سوتے رہے، تاہم میں نے دن نکلنے پر نیند کو خوش آمدید کہا۔ مجھے سفر کی طوالت کا اندازہ تھا، لیکن اس کے باوجود دن گزرتے گزرتے یکسانیت سے بیزاری ہونے لگی۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ میں احتیاطاً ریلوے اسٹیشن پر اترنے سے گریز کر رہا تھا۔ آمنہ کو یقیناً میری ذہنی کیفیت کا اندازہ رہا ہوگا، چنانچہ اس نے مجھے اطمینان دلایا کہ اب خطرہ بہت کم ہو گیا ہے اور اپنے اس حلیے میں مجھے سرسری نظروں سے پہچاننا بھی آسان نہیں۔ لہذا راستے میں آنے والے ریلوے اسٹیشنوں پر ٹرین میں دبکے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود میں نے صرف ضرورت کے وقت ہی ٹرین چھوڑنا مناسب سمجھا۔
گھر سے لایا ہوا کھانا صبح کے ناشتے میں ختم ہو چکا تھا۔ جھانسی کے ریلوے اسٹیشن پر میں کافی تلاش کے بعد عمدہ کھانا ڈھونڈ پایا۔ اسی چکر میں ٹرین چھوٹتے چھوٹتے رہ گئی۔ لہٰذا میں نے باقی راستے میں ایسی حماقت سے گریز کیا۔ خدا خدا کر کے ٹرین بمبئی سینٹرل کے ریلوے اسٹیشن پہنچی تو وہاںحسبِ توقع انسانوں کا سیلاب اور گہما گہمی نظر آئی۔ دلّی بھی کچھ کم گنجان آباد نہیں تھا، لیکن بمبئی کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ آمنہ کے لیے یہ شہر یقیناً اجنبی نہیں تھا۔ وہ ہمیں ساتھ لیے اسٹیشن سے باہر نکلی اور مجھے بھنڈی بازار کے لیے آٹو (رکشا) حاصل کرنے کی ہدایت کی۔ ہماری منزل زیادہ دور ثابت نہیں ہوئی۔ چند ہی منٹوں میں ہم بھنڈی بازار انتہائی گنجان آباد مسلمان محلے میں پہنچ چکے تھے۔
رات کا دوسرا پہر شروع ہونے والا تھا اور دہلی کے مقابلے میں سردی خاصی کم ہونے کے باوجود گلی کوچوں کی رونق ماند پڑنے لگی تھی۔ آمنہ کی رہنمائی میں ہم ایک بہت چھوٹے گھر کے دروازے پر پہنچے، جس پر تالا لگا ہوا تھا۔ اس نے اپنے بٹوے سے چابی نکال کر تالا کھولا اور ہم اپنے سفری بیگ اٹھائے اندر داخل ہوئے۔ دو کمروں اور ایک چھوٹے سے دالان پر مشتمل اس سادہ سے گھر میں ضروریات زندگی کی تما م اشیا موجود تھیں۔ تھکن سے ہمارا برا حال تھا، لہٰذا زیادہ بات کیے بغیر ہم تینوں لمبی تان کے سو گئے۔
اگلے روز دوپہر کے وقت آمنہ کو مجھے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اٹھانا پڑا ’’سرتاج، آپ کا تو پتا نہیں، یہ باندی بھوک سے قریب المرگ ہے، اماں بی کی انتڑیاں بھی تلاوت فرما رہی ہوں گی‘‘۔
’’حالت تو میری بھی اچھی نہیں ہے محترمہ۔ منہ پر چھینٹے مارلوں، پھر نکلتا ہوں‘‘۔ میں نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔ منہ دھوتے ہوئے پانی کے کچھ قطرے منہ میں گئے تو کھارے ذائقے نے بے اختیار کراچی یاد دلا دیا۔ گھر سے باہر نکل کر میں نے آس پاس کے علاقے کا دن کی روشنی میں جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ یہاں کی بیشتر آبادی کم آمدنی والے افراد پر مشتمل ہے۔ میں نے حلیے سے مسلمان نظر آنے والے ایک راہ گیر سے پوچھا کہ اچھا کھانا کہاں سے مل سکتا ہے، تو اس نے غور سے مجھے دیکھا اور بولا ’’بھائی نئے لگتے ہو، کنویں کے منہ پر کھڑے ہوکر پانی کا پوچھ رہے ہو‘‘۔
میں نے نر م لہجے میں کہا ’’جی، آپ درست سمجھے۔ میں پہلی بار پٹھان کوٹ سے بمبئی آیا ہوں۔ رہنمائی فرمادیں گے تو ممنون ہوں گا‘‘۔
اس نے میری عاجزی سے متاثر ہوکر دوستانہ لہجے میں بتایا کہ وہ سامنے والی گلی پار کرتے ہی میں کرافورڈ مارکیٹ پہنچ جاؤں گا۔ جہاں مجھے ہر طرح کا کھانا مناسب داموں دستیاب ہوگا۔ اس کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد میں گرما گرم کھانا لیے گھر پہنچا تو آمنہ اور کریمن خالہ کو بے تابی سے اپنا منتظر پایا۔
کھانے کے دوران آمنہ سے میری نوک جھونک چلتی رہی، تاہم کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہ سنجیدہ ہو گئی ’’آپ چونکہ پہلی بار ممبئی آئے ہیں، لہٰذا میری ذمہ داری ہے کہ اس شہر اور آپ کے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں کچھ رہنمائی مہیا کر دوں۔ بمبئی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ پورے ہندوستان سے ہزاروں لوگ روزانہ آتے ہیں، لہٰذا یہاں کسی بھی اجنبی شخص کو مقامی لوگوں کی کھوجنے والی نظروں کا نشانہ نہیں بننا پڑتا۔ دوسری بات یہ کہ یہاں کے زیادہ تر لوگ حال مست زندگی گزارنے یعنی اپنے کام سے کام رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ ان کے پڑوس میں کون نیا کرایہ دار آکر بسا ہے۔ اور جب تک کوئی غیر معمولی صورتِ حال نہ ہو، کوئی اپنے پڑوسی کے معمولات پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتا‘‘۔
میں آمنہ کی فراہم کردہ معلومات نہایت توجہ سے سن کر ذہن نشیں کر رہا تھا۔ اس نے بات آگے بڑھائی ’’یہاں آپ خاصی حد تک بے فکر ہوکر شہر میں گھوم پھر سکتے ہیں، کیونکہ اتنی بڑی اور رنگا رنگ آبادی میں آپ کو پہچان لیے جانے کا خطرہ بہت کم ہے۔ ہو سکتا ہے یہاں کے تھانوں کو بھی آپ کے حلیے کی معلومات دی جا چکی ہوں، لیکن اول تو پولیس نااہل اور بدعنوان ہے۔ دوسرے ان پر روز مرہ ذمہ داریوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ شاید کسی نے بھی ان معلومات پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی ہوگی۔ ایسے میں کوئی بدقسمتی یا سنگین بے احتیاطی ہی آپ کو پولیس کی توجہ کا مرکز بنا سکتی ہے۔ اس شہر میں ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگوں کی بھرمار ہے، حتیٰ کہ غیر ملکی بھی بھاری تعداد میں یہاں آتے جاتے رہتے ہیں، لہٰذا مذہبی تعصب بہت کم ہے۔ آپ کو بطور مسلمان اپنی شناخت چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مطلب آپ ملاّ کی حیثیت سے بھی یہاں رہ سکتے ہیں، اور چاہیں تو اپنی شناخت اور حلیہ بدل بھی سکتے ہیں، جس کا میں مشورہ بھی دوں گی‘‘۔ (جاری ہے)