امت رپورٹ
نامزد وزیر اعظم عمران خان کو بڑوں نے پانچ اہم مشورے دے دیئے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ابھی کپتان نے اقتدار کا سنگھاسن سنبھالا بھی نہیں ہے، تاہم ان کو پیغام دے دیا گیا ہے کہ ریاست سے متعلق بعض اہم امور پر وہ تن تنہا کوئی فیصلہ کرنے سے گریز کریں۔ دوئم کسی امور پر اعتراض ہو تو مشورے کے بعد اس پر بیان جاری کیا جائے۔ سوئم اپنے اردگرد جمع غیر سیاسی لوگوں کو فارغ کیا جائے۔ چہارم زرداری کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ پنجم رہائش وزیر اعظم ہائوس میں ہی رکھنی ہوگی۔ ان معاملات سے آگاہ ذرائع کے بقول کپتان کے ’’خیر خواہ‘‘ سمجھتے ہیں کہ چھوٹی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ قائم ہونے والی حکومت بہت کمزور ہوگی اور اس پر ہر وقت بلیک میلنگ کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ جبکہ ایسی کمزور حکومت آئین میں مجوزہ ترمیم سے بھی قاصر رہے گی، جس کے لیے دو تہائی اکثریت ضروری ہے۔ لہٰذا نئی حکومت کو مضبوط پوزیشن میں لانے کے لیے زرداری کے ساتھ بیٹھنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان اس معاملے میں تھوڑی بہت مزاحمت دکھا رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس صورت میں ان کی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ البتہ مائنس زرداری پیپلز پارٹی کے ساتھ الائنس پر انہیں اعتراض نہیں۔ لیکن اس کے لیے پیپلز پارٹی تیار نہیں۔ ذرائع کے مطابق چونکہ اب عمران خان کو زرداری کے ساتھ بیٹھنے کا واضح پیغام مل چکا ہے تو وہ انکار کی پوزیشن میں نہیں رہے ہیں۔ اور اس حوالے سے ان کی کمزور مزاحمت ختم ہونے والی ہے۔ اس سنیاریو میں غالب گمان ہے کہ کچھ عرصہ بعد بالآخر پی پی پی کو تحریک انصاف کے اقتدار کی کشتی میں سوار کر لیا جائے گا۔ یوں نئی حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت آجائے گی اور وہ چھوٹی پارٹیوں کی بلیک میلنگ سے بھی محفوظ رہے گی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو سمجھایا گیا ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر وزیر اعظم ہائوس میں رہائش بہتر آپشن ہے۔ کیونکہ اگر انہوں نے کسی اور مقام پر رہائش رکھی تو وزیر اعظم ہائوس کا بڑا عملہ کدھر جائے گا؟ اور پھر سیکورٹی کے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو اپنے اردگرد جمع لوگوں کو فارغ کرنے کا پیغام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی زد میں عون چوہدری اور زلفی بخاری جیسے لوگ آئیں گے۔ ذرائع کے بقول کپتان کے خیر خواہوں کا خیال ہے کہ پارٹی صدر کے طور پر ان لوگوں کا عمران کے گرد رہنا الگ بات تھی، لیکن وزیر اعظم جیسے اہم اور حساس عہدے پر رہ کر ان کا غیر سیاسی وفاداروں کو ماضی کی طرح اپنے انتہائی قریب رکھنا کسی طور پر سود مند نہیں۔ کیونکہ وزیر اعظم کئی حساس ملکی معاملات کا رازدار ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق جس طرح مشورے کے بغیر بالخصوص صوبوں کے گورنر لگائے اور نامزد کئے جا رہے ہیں، اس پر بھی فکرمندی کا اظہار کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف پنجاب کے لیے چوہدری سرور اور سندھ کے لیے عمران اسماعیل کو گورنر نامزد کر چکی ہے، جبکہ بلوچستان اور خیبرپختون کے گورنروں کی نامزدگی کا معاملہ ابھی لٹکا ہوا ہے۔ بالخصوص خیبر پختون میں اس حوالے سے بہت سے نام زیر گردش ہیں۔ اس سلسلے میں خیبرپختون سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایک رہنما نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عمران خان نے قبل ازیں شاہ فرمان کو گورنر لگانے کا ذہن بنا لیا تھا۔ پھر اس راہ میں پی ٹی آئی الیکشن سیل کے سربراہ ارباب شہزاد رکاوٹ بن گئے۔ اس حوالے سے اب نیا موڑ یہ آیا ہے کہ مراد سعید نے بھی گورنر خیبرپختون بننے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔ رہنما کے بقول یہ معاملہ اتوار کی رات بنی گالہ میں ہونے والے اجلاس میں زیربحث آیا، جس میں وہ خود بھی شریک تھا۔ پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ قبل ازیں مراد سعید ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بننا چاہتے تھے۔ تاہم پی ٹی آئی نے اس عہدے پر بلوچستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی قاسم سوری کو نامزد کر دیا۔ جس پر مراد سعید نے کافی شور مچایا کہ ان کی ’’قربانیوں‘‘ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ رہنما کے مطابق اب مراد سعید نے دو مطالبات رکھے ہیں کہ انہیں وفاقی وزارت دی جائے یا گورنر خیبر پختون لگایا جائے۔ تاہم پارٹی کو خدشہ ہے کہ گورنر نامزد کئے جانے کی صورت میں مراد سعید کی ڈگریوں کا معاملہ دوبارہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اور یوں مخالفین کے ہاتھ ایک نیا ایشو آجائے گا۔ تاہم دوسری جانب مراد سعید کا دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی خیبر پختون کے ایک عہدیدار کے مطابق اس سے پہلے عمران خان نے شاہ فرمان کو گورنر خبرپختون بنانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ شاہ فرمان شروع سے ہی کپتان کی گڈ بک میں ہیں اور ایک آزمائے ہوئے وفادار ساتھی ہیں۔ شاہ فرمان نے اپنی سیاست کا آغاز بھی پی ٹی آئی سے کیا تھا، جب پارٹی کے اقتدار میں آنے کی دور دور تک کوئی امید نہیں تھی۔ عہدیدار کے بقول عمران خان کے شاہ فرمان سے دلی لگائو کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب کبھی فارغ ہوتے تھے تو کپتان کے کچن میں برتن دھونے کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ اس طرح شاہ فرمان کی جانب سے عمران خان کو فراہم کیا جانے والا چھوٹی مکھی کا شہد بھی پارٹی کے اندرونی حلقوں میں کافی دلچسپی سے ڈسکس کیا جاتا رہا ہے۔
ادھر اسلام آباد میں موجود پی ٹی آئی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وزارت داخلہ کے قلمدان سے بد دل اور وزارت اعلیٰ پنجاب کے خواہش مند شاہ محمود قریشی نے اب ڈپٹی پرائم منسٹر بننے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔ یہ عہدہ پیپلز پارٹی نے کبھی اپنے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کے لیے تخلیق کیا تھا۔ پارٹی عہدیدار نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کی نئی خواہش پوری کرنے کے لیے عمران خان کسی حد تک آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ ایشو پارٹی کے اجلاسوں میں ڈسکس بھی کیا گیا ہے۔ عمران کا خیال ہے کہ اگر نائب وزیر اعظم کا عہدہ شاہ محمود قریشی کو دے دیا جائے تو بطور وزیر اعظم فائلیں وغیرہ دیکھنے کی ذمہ داری سے انہیں فراغت مل سکتی ہے۔ ابھی اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا، تاہم اس پر غور و خوض جاری ہے۔ عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ اسد قیصر کو قومی اسمبلی کا اسپیکر نامزد کئے جانے پر عارف علوی خوش نہیں، کیونکہ وہ خود اس عہدے کے خواہش مند تھے۔ عہدیدار کے بقول وزارتوں اور اہم حکومتی عہدوں کے حصول کی خاطر پارٹی میں جاری اندرونی تنازعات تا حال ختم نہیں ہوئے ہیں۔ اگرچہ ’’خانصاحب‘‘ نے پرویز خٹک اور عاطف خان کی صلح کرا دی ہے، لیکن بالخصوص عاطف خان کا دل پوری طرح صاف نہیں ہو سکا ہے۔