یہ حج کا موقع ہے، مکہ مکرمہ میں مشہور اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان اپنی چارپائی پر براجمان ہے۔ ہر قبیلے کے نمایاں افراد اس کے ارد گرد بیٹھے ہیں۔ اتنے میںمشہور محدث وفقیہ حضرت عطاء بن ابی رباحؒ بھی اس مجلس میں پہنچ گئے۔ خلیفہ کی عطائؒ پر نظر پڑی تو ان کے احترام میں کھڑا ہو گیا اور انہیں عزت واحترام کے ساتھ اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھالیااور کہا: ابو محمد! کوئی حاجت ہو تو بتائیے۔
عطائؒ کہنے لگے: امیر المؤمنین! خدا کے حرم اور رسول اقدسؐ کے حرم کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہیے، انہیں آباد رکھنے کا اہتمام کریں۔ مہاجرین اور انصار کی اولادوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہیے کہ آپ نے یہ مجلس جو قائم کی ہے، انہی کی وجہ سے قائم کر سکے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ یہ دین کی رونقیں مہاجرین اور انصار کی قربانیوں کی بدولت ہی وجود میں آئی ہیں۔ سرحدوں پر جو مجاہد ڈیوٹی دے رہے ہیں، ان کے بارے میں بھی خدا سے ڈرتے رہیں کہ وہ مسلمانوں کے مضبوط قلعے ہیں، مسلمانوں کے امور کے متعلق بھی خدا سے ڈرتے رہیں کہ آپ تنہا ان کے مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ جو لوگ آپ کے دروازے پر آتے ہیں، ان کے بارے میں بھی خدا سے ڈرتے رہیں، ان کے بارے میں کسی قسم کی غفلت کے مرتکب نہ ہوں، ان پر اپنے دروازے کبھی بند نہ کرنا۔
خلیفہ نے کہا: میں یہ سب کام ضرور کروں گا۔
جب عطاءؒ اٹھنے لگے تو خلیفہ نے ان کا ہاتھ پکڑلیا اور کہا: ابو محمد! آپ نے لوگوں کے مسائل تو بیان کئے اور ہم نے آپ کی تمام باتیں مان لیں۔ یہ بتلائیے کہ آپ کی حاجت کیا ہے؟ فرمانے لگے: اے خلیفہ! مجھے دنیا کے کسی شخص سے کوئی حاجت نہیں۔ یہ کہا اور وہاں سے چل دیئے۔
عبد الملک کہنے لگا: یہ ہے حقیقی عزت، اور یہ ہے حقیقی سرداری۔ (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم)
ضمرہ بن ربیعہؒ کہتے ہیں:
ہم نے 150 ہجری میں امام اوزاعیؒ کے ساتھ حج کیا۔ ہم نے انہیں پورے سفر کے دوران رات یا دن میں’’ محمل‘‘ پر سوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ’’محمل‘‘ لکڑی کے اس اسٹینڈ کو کہتے ہیں جو اونٹ کی کمر پر رکھ کر اس کے دونوں طرف سامان لاد لیا جاتا ہے۔ جب تھک جاتے تو پالان کے پچھلے عمود کے ساتھ ٹیک لگا کر کمر سیدھی کر لیتے۔ (تاریخ دمشق)
ابراہیم ابن جنیدؒ کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن معینؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا:
دنیا کی یہ زندگی ایک خواب کی طرح ہے۔ خدا کی قسم! اس شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا جو خدا سے ڈرتے ہوئے صبح وشام کرے۔ میں نے پہلا حج اس وقت کیا تھا جب میری عمر 24 برس تھی۔ میں بغداد سے پیدل چلا اور مکہ مکرمہ پہنچا۔ آج اس بات کو50 برس ہو گئے اور یوں لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ انسان جو زندگی گزار لیتا ہے وہ اسے ایک دن یا دن کے کچھ حصے کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ کل قیامت کے دن بھی جب لوگ اٹھائے جائیںگے تو حق تعالیٰ پوچھے گا: تم لوگ زمین میں کتنی دیر ٹھہرے؟ وہ کہیں گے: ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ خدایا! اگر ہماری بات پر یقین نہ ہو تو حساب کتاب جاننے والوں سے پوچھ لیں۔ اس کی ایک ادنیٰ جھلک دنیا کی زندگی کے اندر بھی پائی جاتی ہے۔ آدمی جب پیچھے کی طرف دیکھتا ہے تو یہی لگتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی ہی تھی، جو میں نے آج تک گزاری ہے۔
مروذیؒ کہتے ہیں: امام احمد ابن حنبلؒ نے بتایا:
میں 20 برس کا تھا کہ ہشیم نے وفات پائی۔ میں اور میرا ایک اعرابی ساتھی گھر سے پیدل نکلے اور چلتے چلتے کوفہ پہنچے۔ ہم ابو معاویہ کے ہاں پہنچے تو دیکھا کہ ان کے پاس لوگوں کا ہجوم ہے۔ ابو معاویہ نے اعرابی کو60درہم دیے اور کہا کہ جائو ان سے حج کرو۔ میرے ساتھی اعرابی نے مجھے گھر میں تنہا چھوڑا اور مکہ مکرمہ کو چل دیا۔ مجھے تنہائی سے وحشت محسوس ہونے لگی۔ میرے پاس صرف ایک تھیلی تھی جس میں کتابیں تھیں۔ میں اسے ایک اینٹ پر رکھ کر اسے اپنا تکیہ بنا لیتا۔ میں وکیعؒ کے ساتھ ثوریؒ کی احادیث کا تبادلہ کیا کرتا تھا۔ ایک بار انہوں نے ایک حدیث بیان کی اور کہا: یہ ہشیم کی روایت ہے۔ میں نے کہا: نہیں ایسا نہیں۔ بسا اوقات وہ10 احادیث بیان کرتے اور میں انہیں حفظ کر لیتا۔ جب وہ اٹھ جاتے تو حاضرین مجھ سے ان احادیث کو لکھوانے کا مطالبہ کرتے، میں یہ احادیث انہیں لکھوا دیتا۔
امام احمدؒ کے بیٹے کہتے ہیں: مجھ سے ایک دفعہ والد صاحب نے فرمایا: تم وکیعؒ کی تصنیف کردہ کوئی بھی کتاب لو اور اگر تم چاہو تو حدیث کے متن کے بار ے میں مجھ سے سوال کرو تو میں تمہیں اس کی سند بتا دوں گا اور اگر تم سند کا ذکر کرو تو میں تمہیں اس حدیث کا متن سنا دوں گا۔ (سیر اعلام النبلاء)
٭٭٭٭٭