9 ذوالحجہ یعنی عرفہ کے دن کی فضیلت ہر شخص کو اس ملک کی تاریخ کے اعتبار سے حاصل ہوگی، جس ملک میں وہ شخص موجود ہے۔ جیسا کہ عیدالاضحی ہر شخص اپنے ملک کی تاریخ کے اعتبار سے کرے گا، اسی طرح یوم عرفہ بھی عید الاضحی سے ایک دن پہلے شمار ہوگا۔ بعض لوگ عرفہ کے دن کسی ایک مقام پر اکٹھے اور جمع ہونے کو ثواب سمجھتے ہیں اور عرفات میں حاجیوں کے اجتماع کی مشابہت کرتے ہیں۔ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، بلکہ بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔
عشرئہ ذی الحجہ اور نو ذوالحجہ کے روزوں کے مسائل دوسرے نفل روزوں کی طرح ہیں۔
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو وہ تو جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (ترمذی، مسلم، ابوداؤد)
بال ناخن نہ کاٹنے کا حکم قربانی والے کے لیے ہے۔ یہ مستحب ہے، فرض واجب نہیں، لہٰذا کوئی اس کی رعایت نہ کر سکا تو بھی گناہ گار نہ ہوگا۔ عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ اگر اضافی بالوں اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہو رہے ہوں تو یہ حکم نہیں، صفائی ضروری ہے۔
9 ذوالحجہ کی فجر سے لے کر 13 ذوالحجہ کی عصر تک پانچ دنوں میں تکبیر تشریق کی خاص تاکید اور فضیلت ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اور یاد کرو خدا کو گنتی کے دنوں میں۔‘‘ (بقرۃ)
ابن شہاب زہریؒ فرماتے ہیں ’’رسول اکرمؐ سب ایام تشریق کے دنوں میں تکبیر پڑھتے تھے۔‘‘
حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمرؓ عرفہ (9ذوالحجہ)کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز تک تکبیر تشریق پڑھتے تھے۔‘‘(کنزالعمال)
حضرت امام محمد سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’(ہمارے شیخ امام) ابوحنیفہؒ سے ہم نے اور وہ حضرت حمادؒ سے اور وہ حضرت ابراہیم نخعیؒ سے وہ حضرت علیؓ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ عرفہ (9/ذوالحجہ) کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نما ز تک تکبیر تشریق پڑھتے تھے۔ (کتاب الآثار)
اسی وجہ سے ہمارے فقہاء کے نزدیک تکبیر تشریق 9/ذوالحجہ کی فجر سے لے کر 13/ ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔
٭٭٭٭٭