خصی بکرے، مینڈھے، بیل کی قربانی جائز ہے، اس میں کسی قسم کی کراہت نہیں، یہ عیب گوشت کی عمدگی کے لئے قصداً کیا جاتا ہے، اس لئے اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ آنحضرتؐ نے خصی جانور کی قربانی فرمائی ہے، اس لئے یہ عیب نہیں، نیز یہ کہ اس سے گوشت اچھا ہوتا ہے، بدبو ختم ہو جاتی ہے اور گوشت اچھی طرح پکتا ہے اور کھانے میں لذیذ ہوتا ہے اور جانور موٹا تازہ ہوتا ہے، لوگوں کو مارتا نہیں۔ جانور کو موٹا تازہ اور فربہ بنانے یا کسی منفعت کی نیت سے خصی کرنا جائز ہے، ہاں اگر خصی کرنے کا مقصد کوئی منفعت نہیں، بلکہ لہو لعب کے لئے ہو تو حرام ہے۔ خنثی جانور کی قربانی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ عیب ہے۔ اگر کوئی جانور شکل و صورت میں بکرے جیسا ہے، لیکن پیدائشی طور پر بکرا یا بکری نہیں، بلکہ خنثیٰ ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی۔
قربانی کے جانور کی چربی بیچنا جائز نہیں، اگر قربانی کرنے والے یا اس کے وکیل نے جانور کی چربی فروخت کی ہے تو حاصل شدہ رقم مستحق زکوٰۃ لوگوں میں صدقہ کر دینا لازم ہوگا۔ اجتماعی قربانی میں کافی چربی جمع ہوجاتی ہے تو اس کا مصرف یہ ہے کہ قربانی کرنے والے کی اجازت سے فروخت کرکے اس کی قیمت کسی مستحق کو بطور ملکیت دیدی جائے۔
چرم قربانی (قربانی کی کھال) فروخت کرنے سے پہلے تو خود بھی استعمال کر سکتا ہے اور مالداروں کو بھی ہدیہ کے طور دے سکتا ہے اور فقراء و مساکین پر صدقہ بھی کر سکتا ہے، لیکن اگر روپہ پیسوں کے عوض فروخت کردیا تو خواہ کسی نیت سے فروخت کیا ہو، اس کا صدقہ کر دینا واجب ہو جاتا ہے اور اس کا مصرف صرف فقراء و مساکین ہیں، مالداروں کو دینا یا ملازمین کی تنخواہوں میں دینا جائز نہیں۔
قربانی کے لئے جو جانور خریدا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ چوری کا ہے، اس صورت میں اگر وہ جانور چوری کرنے والے سے خریدا ہے تو قربانی جائز نہیں ہوگی، دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا لازم ہوگا۔ اگر جانور ذبح ہونے کے بعد اصل مالک اجازے دیدے تو گوشت کھانا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔ جانور کو ذبح کرنے کیلئے جو چھری استعمال کی جائے، وہ تیز ہونی چاہے تاکہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو اور جانوروں کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔
چھوٹے گاؤں میں جہاں جمعہ اور عیدین کی نمازیں واجب نہیں ہوتیں، وہاں کے لوگ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد قربانی کر سکتے ہیں، کیونکہ حدیث شریف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جہاں عید کی نماز ہوتی ہے، وہاں عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا منع ہے اور جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی، جیسے چھوٹا گاؤں وغیرہ تو وہاں فجر کے بعد قربانی کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
بانجھ جانور کی قربانی درست ہے، کیونکہ اس پر ممانعت کا حکم نہیں آیا اور بانجھ ہونا قربانی کیلئے عیب نہیں ہے، جس طرح جانور کا خصی ہونا اور جفتی سے عاجز ہونا قربانی کیلئے عیب نہیں ہے، اسی طرح بانجھ ہونا بھی عیب نہیں، بلکہ بانجھ جانور اکثر و بیشتر لحیم و شحیم (خوب موٹا تازہ) ہوتا ہے اور گوشت بھی عمدہ ہوتا ہے، اس لئے قربانی جائز ہے۔
باؤلے جانور کی قربانی درست ہے، لیکن اگر باؤلے پن کی وجہ سے کھاپی نہ سکتا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔
ایک آدمی کیلئے ایک بڑے جانور کی قربانی جائز ہے۔ بڑے جانور میں سات افرا کا شریک ہونا ضروری نہیں ہے۔ بڑے جانور میں سات افراد سے کم شریک ہوں، تب بھی قربانی درست ہے، مثلاً کسی جانور میں چھ یا پانچ یا اس سے کم شریک ہوں تو بھی درست ہے، یہاں تک کہ اگر صرف تنہا ہی ایک آدمی پورے بڑے جانور کی قربانی اپنی طرف سے کرے تو بھی جائز ہے۔
جو جانور اندھا ہو یا کانا ہو، اس کی ایک آنکھ کی تہائی روشنی (بینائی) یا اس سے زیادہ چلی گئی ہو تو اسکی قربانی جائز نہیں ہے، جو جانور ترچھی آنکھوں سے دیکھتا ہے اس کی قربانی درست ہے۔
اگر کوئی شخص دوسرے آدمی کی واجب قربانی کرنا چاہے تو اس سے اجازت لینا ضروری ہے، ورنہ اجازت کے بغیر قربانی کرنے کی صورت میں دوسرے کی واجب قربانی ادا نہیں ہوگی۔
موجودہ دور میں اجتماعی قربانی کا رواج عام ہورہا ہے اور بہت سارے ادارے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، یہ جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ اگر کھال کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں اجتماعی قربانی میں حصے لینے کو ترجیح دینا بہتر ہے تاکہ قربانی بھی ہوجائے اور پریشانی بھی نہ ہو اور کھال بھی مستحق لوگوں کو مل جائے۔
اجتماعی قربانی میں ایک بات کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر حرام آمدنی والے افراد کے ساتھ شرکت نہ ہو ورنہ قربانی صحیح نہیں ہوگی، اس لئے اجتماعی قربانی کا انتظام کرنے والے اداروں پر ضروری ہے کہ اس بات کا خیال رکھیںاور اس کی آسان صورت یہ ہے کہ جہاں حصوں کی بکنگ ہوتی ہے وہاں بڑے حروف میں یہ اعلان لکھ کر آویزاں کریں کہ ’’حرام آمدنی والے مثلاً سود، جوا، بینک، انشورنس، ڈاکہ اور چوری کی رقم والے اجتماعی قربانی میں شرکت نہ کریں ورنہ وہ خود ذمہ دار ہوں گے‘‘۔
اجتماعی قربانی میں مشترکہ جانور ذبح کرنے سے پہلے جن سات شریکوں کی طرف سے یہ قربانی ہے ان کا تعین اور ذبح کرتے وقت ان کی طرف سے قربانی کی نیت کرنا ضروری ہے ورنہ تعین نہ ہونے کی وجہ سے قربانی صحیح نہیں ہوگی۔
اگر اجتماعی قربانی میں قربانی کے بعد رقم بچ جائے تو بقیہ رقم واپس کرنا لازم ہوگا، رقم جمع کرانے والوں کی اجازت کے بغیر بچی ہوئی زائد رقم اجتماعی قربانی والوں کے لئے رکھنا جائز نہیں ہوگا۔ ہاں اجتماعی قربانی کرنے والے اجرت کے طور پر کچھ لینا چاہیں تو ابتدا ہی سے متعین کرکے لے سکتے ہیں بعد میں نہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭