اقبال اعوان
ملک میں کھالوں کی صنعت کو اس بقرعید پر چار لاکھ کھالیں زائد ملنے کا امکان ہے۔ پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کے رہنما گلزار فیروز کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ سال عیدالاضحیٰ پر چھوٹے، بڑے جانوروں کی مجموعی طور پر 61 لاکھ 5 ہزار کھالیں جمع ہوئی تھیں۔ اس بار 65 لاکھ 5 ہزار کھالیں جمع ہونے کی توقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’اس بار کھالیں کم قیمت پر خریدی جائیں گی۔ عالمی مارکیٹ میں کھالوں کے ریٹ نہ بڑھنا، اس انڈسٹری کو نقصان دے رہا ہے۔ اس کی اہم ترین وجوہات میں چائنا کا تیار کردہ مصنوعی چمڑا سرفہرست ہے، جو اصلی لیدر سے آدھی قیمت میں آتا ہے۔ جبکہ ترکی، اٹلی اور روس کی خراب معیشت بھی خاص وجوہات ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سال بھر اس شعبے سے وابستہ لاکھوں لوگوں کو انتظار رہتا ہے کہ سب کو کام ملے گا۔ ہر سال قربانی کے جانوروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور کھالیں بیرون ملک، خاص طور پر یورپ بھیجی جا رہی ہیں۔ تاہم ان کھالوں کی مناسب قیمت نہیں مل رہی۔ ملک میں کھالوں کی قیمت خرید گزشتہ تین چار سال سے مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ سال ملک بھر میں گائے کی 20 لاکھ کھالیں، بکرے کی 30 لاکھ، دنبے کی 8 لاکھ، بھینسوں کی 3 لاکھ اور اونٹ کی 5 ہزار کھالیں جمع ہوئی تھیں۔ یہ کل 61 لاکھ 5 ہزار تھیں۔ تاہم اس بار امید ہے کہ 4 لاکھ کھالوں کا اضافہ ہوگا۔ اس تعداد کا اندازہ ملک بھر میں جانوروں کی موومنٹ اور منڈیوں میں جانور آنے اور خریدے جانے کے بعد لگایا جاتا ہے۔ اس بار گائے کی کھالیں گزشتہ سال کی نسبت 3 لاکھ زیادہ ملنے کی امید ہے۔ گزشتہ سال گائے کی 20 لاکھ کھالیں جمع ہوئیں۔ اس بار 23 لاکھ کھالوں کی توقع ہے۔ جبکہ بھینسوں کی کھالیں اس بار ایک لاکھ زیادہ ملنے کی امید ہے۔ گزشتہ سال 3 لاکھ بھینسوں کی کھالیں ملی تھیں۔ اس بار 4 لاکھ کھالوں کی امید ہے۔ جبکہ بکرے، دنبے اور اونٹ کی کھالوں میں اضافہ نہیں ہوگا اور اس بار بھی گزشتہ سال کی طرح بکرے کی 30 لاکھ، دنبے کی 8 لاکھ اور اونٹ کی 5 ہزار کھالیں ہی ملنے کی توقع ہے‘‘۔ گلزار فیروز کا کہنا تھا کہ ’’گزشتہ برسوں کی طرح اس بار جانوروں کی کھالوں کی قیمت خرید مزید کم ہوگی۔ گزشتہ سال گائے، بیل کی کھال 16 سے 18 سو روپے میں خریدی گئی۔ جبکہ اس بار 14 سو سے 15 سو روپے میں خریدی جائے گی۔ بکرے کی کھال گزشتہ سال 150 سے 200 روپے تک میں فروخت ہوئی۔ اس بار یہ کھال 150 روپے یا اس بھی کم میں خریدی جائے گی۔ دنبے کی کھال گزشتہ سال 80 روپے سے 100 روپے میں خریدی گئی، اس بار بھی اتنی ہی قیمت میں خریدی جائے گی۔ اونٹ کی کھال گزشتہ سال 800 روپے میں خریدی گئی اور اس بار بھی اتنی ہی قیمت میں خریدی جائے گی۔ اسی طرح گزشتہ سال بھینس کی کھال کی قیمت 700 روپے تھی۔ اس بار بھی 650 سے 700 روپے تک میں خریدی جائے گی۔ کھالوں کی قیمت گرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ کھالیں یورپ تو بھیجی جارہی ہیں، تاہم ایکسپورٹ ڈیمانڈ کم ہونے پر ہم قیمت نہیں بڑھا سکتے۔ چند ہفتے قبل ترکی کی کرنسی 20 فیصد ڈی ویلیو ہوئی ہے اور ایکسپورٹ مہنگی کر دی گئی ہے۔ یورپ میں اٹلی نمبر ون تھا، سارے یورپ کی طرح اس کی اکانومی بھی خراب ہو چکی ہے۔ اٹلی کی کرنسی بھی 30 فیصد ڈی ویلیو ہوچکی ہے۔ اٹلی جوتے بنا کر روس کو بھیجتا ہے، پاکستان صرف لیدر فراہم کرتا ہے۔ چائنا نے جب سے آرٹیفیشل لیدر بنا کر اٹلی اور ترکی کو دینا شروع کیا ہے، کھالوں کی مارکیٹ خراب ہوگئی ہے۔ اس طرح پاکستانی لیدر کی مارکیٹ اٹلی اور ترکی میں خراب ہو رہی ہے اور ڈیمانڈ کم کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر کا بھی مسئلہ چل رہا ہے، اس طرح مارکیٹ پر مزید منفی اثر پڑے گا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’کھالوں کی قیمت کم ہونے پر لوگوں میں مایوسی نظر آئے گی۔ ورنہ ایک دنبے کی کھال کے حصول کیلئے بھی لوگ کئی چکر لگاتے تھے۔ اب 80 روپے کی کھال کیلئے کون چکر لگائے گا۔ جبکہ کھال وصول کرکے نمک لگا کر محفوظ رکھنا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ، لیبر اور دیگر اخراجات بھی بڑھ چکے ہیں۔ جانوروں کی کھالوں کو سڑنے سے محفوظ رکھنے کیلئے نمک لگاتے ہیں۔ کراچی میں زیادہ تر سمندری نمک کا استعمال ہوتا ہے جبکہ دوسرے شہروں میں پہاڑی نمک لگایا جاتا ہے۔ گائے، بیل، بھینس، اونٹ کی کھال پر لگ بھگ 3 کلو نمک لگتا ہے۔ جبکہ دنبے اور بکرے کی کھال پر 2 کلو نمک لگتا ہے۔‘‘ گلزار فیروز کا مزید کہنا تھا کہ ’’ٹینری انڈسٹری کی بہتری کے حوالے سے فی الحال بہت زیادہ امیدیں نظر نہیں آرہی ہیں۔ جب بیرون ملک لیدر کی ڈیمانڈ بڑھے گی تو پاکستان میں بھی اچھی قیمت پر کھالیں خریدیں گے‘‘۔
٭٭٭٭٭