حمزہ کو نواز شریف سے مشاورت کے بغیر اپوزیشن لیڈر نامزد کیا گیا

امت رپورٹ
مسلم لیگ (ن) کے اراکین پارلیمنٹ گزشتہ روز بھی نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر اپنے قائد کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی نہیں کر سکے۔ ذرائع کے مطابق لیگی اراکین کی اکثریت جن میں بعض سینیٹرز بھی شامل ہیں، اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے۔ اسی لیے اراکین کی اکثریت نے احتساب عدالت کے سامنے حاضری دینا مناسب نہیں سمجھا۔ ان لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی صدر شہباز شریف جو خود بھی تصادم نہیں چاہتے، لیک وہ نواز شریف کے بیانیے کو آگے بڑھانے پر مجبور ہیں کہ سابق وزیر اعظم اپنا سخت بیانیہ ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ دوسری جانب ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حمزہ شہباز کو نواز شریف سے مشاورت کئے بغیر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کیا گیا ہے۔ حالانکہ نواز شریف نے سعد رفیق کو پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کا قائد بنانے کا مشورہ دیا تھا۔
گزشتہ روز (بدھ کو) میاں نواز شریف کی احتساب عدالت آمد کے سبب شہباز شریف اسپیکر کے انتخاب کے موقع پر سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کے طور پر قومی اسمبلی میں خطاب نہیں کر سکے۔ تاہم وہ احتساب عدالت کے سامنے کسی بڑے مظاہرے کا انتظام کرنے میں بھی ناکام رہے، جس کا پلان نواز لیگ کی پارلیمانی پارٹی میں طے کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) سے وابستہ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل میں نواز لیگ کے بیشتر اراکین پارلیمنٹ مقتدر اداروں سے تصام نہیں چاہتے اور شہباز شریف بھی مفاہمانہ پالیسی کے قائل ہیں۔ لیکن پارٹی صدر کی مجبوری یہ ہے کہ وہ کسی بھی لیگی اجلاس میں کھل کر اپنی اس پالیسی پر پارٹی رہنمائوں اور پارلیمانی ارکان کو اعتماد میں نہیں لے سکے ہیں، کیونکہ پارٹی کے اسیر قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنا سخت بیانیہ کسی صورت ترک کرنے پر آمادہ نہیں اور یہ کہ اسی سبب عوام اور کارکنان میں شہباز شریف کے مقابلے میں نواز شریف کو مقبولیت بھی حاصل ہے۔ ذرائع کے بقول شہباز شریف مخمصے میں ہیں اور ان کی اسی کیفیت کی وجہ سے گنتی کے چند لوگ احتساب عدالت کے سامنے جمع ہوئے۔ ان میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی، جن کی قیادت مریم اورنگ زیب کر رہی تھیں۔ شہباز شریف بھی رسماً احتساب عدالت پہنچے اور ان کے ساتھ 50 کے قریب کارکنان اور رہنما تھے۔ جن میں امیر مقام، آصف کرمانی، چوہدری تنویر، سعدیہ عباسی، جاوید ہاشمی، سردار ممتاز، انجم عقیل خان، عامرڈوگر، اسرار خان، جہانگیر ایڈووکیٹ، دانیال تنویر، دانیال عزیز، ملک ابرار، طارق فاطمی، جاوید عباسی، مشاہد حسین سید، سردار یعقوب خان ناصر، سینیٹر نزہت صادق، رانا تنویر، خرم دستگیر، ڈاکٹر رمیش لال، مصدق ملک، طاہرہ اورنگزیب، زیب جعفر، سردار نسیم، خواجہ آصف، پرویز رشید، مشاہداللہ خان، رانا ثناء اللہ، زہرہ فاطمی، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، برجیس طاہر، مرتضی جاوید عباسی اور شکیل اعوان نمایاں تھے۔ گزشتہ روز پہلی بار نواز لیگ کے احتجاج میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی رہائی کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔ ذرائع نے کہا کہ شہباز شریف ابھی تک اس حقیقت کو قبول نہیں کر سکے کہ وہ اب اپوزیشن لیڈر ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ اب تک مفاہمانہ پالیسی کو بہتر سمجھتے ہیں اور مفاہمت ہی کی سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے مشورے کے باوجود سعد رفیق کو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر نہیں نامزد نہ کرنے کا سبب بھی یہی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سعد رفیق کی زبان مقتدر حلقوں کے بارے میں زیادہ کھل جاتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حمزہ شہباز کو نواز شریف سے مشاورت کے بغیر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کیا گیا، جبکہ وزیر اعلیٰ کیلئے بھی انہیں ہی نامزد کیا گیا ہے۔ شہباز شریف یہ بھی چاہتے ہیں کہ لاہور کی سیاست سے سعد رفیق کے خاندان کا کنٹرول بھی ختم ہو۔ ادھر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز لیگ میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دو دن پہلے لاہور میں پنجاب اسمبلی کے پارلیمانی اجلاس میں 129 ارکان کی جگہ 121 ارکان نے شرکت کی۔ مسلم لیگ (ن) نے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی 129 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایک آزاد رکن ان کے ساتھ شامل ہوا۔ اس طرح ان کی تعداد 130 ہو گئی۔ پنجاب اسمبلی میں خواتین کی مخصوص30 اور 4 مخصوص اقلیتی نشستیں ملنے کے بعد لیگی ارکان کی تعداد 164 ہو گئی ہے۔ لیکن پارلیمانی اجلاس میں صرف 121 ارکان شریک ہوئے۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلی کی 119 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور 29 آزاد اراکین پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، جبکہ خواتین کی مخصوص 33 اور اقلیت کی 4 نشستیں حاصل ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 179 ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ ق نے7 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایک آزاد رکن کے شامل ہونے کے بعد ان کے ارکان 8 ہو گئے اور انہیں خواتین کی دو مخصوص نشستیں ملیں۔ یوں قاف لیگ کے کُل اراکین کی تعداد10 ہو گئی۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب سے 6 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ انہیں خواتین کی مخصوص ایک نشست ملی، جس کے بعد پی پی ارکان کی تعداد 7 ہو گئی۔ پنجاب اسمبلی سے ایک آزاد امیدوار پاکستان راہ حق پارٹی میں شامل ہوا، جبکہ 4 آزاد اراکین کسی کے ساتھ شامل نہیں ہوئے۔ یوں پنجاب میں کھیل نواز لیگ کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment