عمران خان
ایف آئی اے سندھ نے35 ارب روپے منی لانڈرنگ کیس میں سمٹ بینک کے ’’سینٹرل ڈیٹا سرور‘‘ سے اومنی گروپ اور بینکاروں کے درمیان ہونے والے ای میل رابطوں کا ریکارڈ جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کیلئے تیار کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ میں ایف آئی اے کی ٹیم نے بینک سے حاصل ہونے والے اکائونٹس کا ڈیٹا اور منی ٹریل حاصل کرنے کے بعد تحقیقات کو فارنسک انویسٹی گیشن کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔ اب بینک کے کمپیوٹرز سے وہ معلومات حاصل کی جا رہی ہیں جو اب تک ایف آئی اے کو بینک حکام سے نہیں مل سکی تھیں۔ اس کیلئے ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے فارنسک ایکسپرٹ اور ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کے تفتیشی افسر پر مشتمل ٹیم قائم کردی گئی ہے۔
ایف آئی اے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سمٹ بینک کے سینٹرل ڈیٹا سرور سے ان ای میلز کا ریکارڈ حاصل کرلیا گیا ہے، جن کے پاس ورڈز، ایف آئی اے حکام کو بینک افسران کی جانب سے رضاکارانہ طور پر دیئے گئے ہیں۔ تاہم جن ای میلز کے پاس ورڈ ایف آئی اے حکام کو نہیں موصول ہوئے، ان کے ڈیٹا کی ریکوری کیلئے فارنسک ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار اور ایف آئی اے انسپکٹر محمد اقبال کو خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول جعلی اکائونٹس کھلوانے اور انہیں چلانے کیلئے انور مجید کے اومنی گروپ کے شعبہ اکائونٹس کے دو افسران، بینک افسران سے بذریعہ ای میل رابطے میں رہتے تھے اور ان اکائونٹس سے ہونے والے کروڑوں روپے کی ہر ٹرانزیکشن کیلئے منظوری کی ای میلز اور دوسرے اکائونٹ میں رقم منتقل ہونے کی تصدیقی ای میلز بینک افسران کو موصول ہوتی تھیں۔ ذرائع کے مطابق ان ای میلز پر مبنی یہ اہم ریکارڈ منی لانڈرنگ کا ناقابل تردید ثبوت ہوگا۔ ذرائع کے مطابق منی ٹریل اور اکائونٹس کے بینکنگ ریکارڈ کے بعد ای میلز ڈیٹا کی ریکوری سے منی لانڈرنگ کے الزام کا سامنا کرنے والے 32 افراد کیلئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ جبکہ ان ثبوت اور شواہد کی روشنی میں جے آئی ٹی کی جانب سے سمٹ بینک کا صدر رہنے والے حسین لوائی سمیت انور مجید اور ان کے صاحبزادے اور اومنی گروپ کے دونوں اکائونٹ آفیسرز سے تحقیقات کو آگے بڑھایا جائے گا۔ پیر کے روز اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی کو کمرہ عدالت کے باہر سے ایف آئی اے کی ٹیم نے گرفتار کیا، جنہیں کراچی منتقل کیا جا رہا ہے، جہاں پر ان سے جعلی بینک اکائونٹس کھلوانے اور ان اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کے حوالے سے مزید تحقیقات کی جائیں گی۔
اس وقت ایف آئی اے سندھ، منی لانڈرنگ کیس میں 32 افراد کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے، جن میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے علاوہ آصف زرداری کے قریبی دوست انور مجید اور ان کے صاحبزادے بھی شامل ہیں۔ مذکورہ کیس میں جے آئی ٹی کے اراکین کی میٹنگ کے بعد تحقیقات کے دوسرے مرحلے میں فارنسک انویسٹی گیشن کو آگے بڑھانے کیلئے ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی مردان کی جانب سے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر کراچی میں جے آئی ٹی کے اراکین کی میٹنگ کے بعد لیٹر نمبر NO, FIA/SBC/KHI/FIR-04-2018/3650-52 میں تحریری مراسلہ جاری کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے فارنسک عبدالغفار کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی کے انسپکٹر محمد اقبال کے ساتھ مشترکہ طور پر تحقیقات کو آگے بڑھائیں، تاکہ جے آئی ٹی اراکین کیلئے ریکور ہونے والے ڈیٹا کو رپورٹ کا حصہ بنایا جاسکے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق منی لانڈنگ کیس 2015ء میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے کی فارنسک تحقیقات میں 2015ء میں کھولے گئے اکائونٹس کے حوالے سے کی جانے والی ای میلز کا ریکارڈ بھی ریکور کیا جا رہا ہے۔ تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ان اکائونٹس کے کھولنے اور اکائونٹس کے ذریعے ہونے والی ٹرانزیکشن کے حوالے سے وہ بنیادی رپورٹیں جو تمام نجی بینک، اسٹیٹ بینک کے احکامات کے تحت سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو دینے کے پابند ہیں، وہ ارسال کی گئی تھیں یا نہیں؟ کیونکہ یہ ثبوت اس کیس میں بہت اہم ہوں گے اور ان کی بنیاد پر مقدمے میں نامزد بینک کے چیئرمین عبداللہ لوتھا اور صدر حسین لوائی کے علاوہ برانچ منیجر وغیرہ کے خلاف مضبوط پراسیکیوشن عمل میں لائی جائے گی۔ ذرائع کے بقول جعلی اکائونٹس، بینک منیجرز نے انتظامیہ جبکہ انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے۔ یہ تمام اکاؤنٹس 2013ء سے 2015ء کے دوران 6 سے 10 ماہ کیلئے کھولے گئے تھے، جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔ اس کا ابتدائی تخمینہ 35 ارب روپے تھا۔ تاہم جیسے جیسے منی ٹریل آگے بڑھتا جا رہا ہے، اس رقم کی مالیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو اب 70 ارب کے منی ٹریل کی حد کو چھونے لگی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے مشکوک ترسیلات کی رپورٹ ملنے پر سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل میں انکوائری ہوئی۔ جس میں مارچ 2015ء میں چار بینک اکائونٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے تھے۔ اس وقت یہ انکوائری ایف آئی اے کے سب انسپکٹر ظہور باچکانی کے پاس تھی جنہوں نے اس شہری کو طلب کرکے تحقیقات کی تھیں جس کے نام پر سمٹ بینک کی خیابان تنظیم برانچ میں اے ون انٹرنیشنل کمپنی کے نام سے اکائونٹ کھولا گیا تھا۔ اس ایک اکائونٹ سمیت دیگر تین بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے تھے۔ ذرائع کے بقول 2015ء میں ہی اس انکوائری میں سب انسپکٹر ظہور باچکانی کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ تاہم سیاسی دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا، بلکہ انکوائری کو بھی روک دیا گیا تھا۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے سمٹ بینک، سندھ بینک اور یوبی ایل میں کھولے گئے مجموعی 29 مشکوک اکائونٹس سے ہونے والی ٹرانزیکشن کے ای میل ریکارڈ کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو ان بینکوں سے ارسال کردہ رپورٹوں کا ڈیٹا بھی ریکور کیا جائے گا۔ کیونکہ اسٹیٹ بینک کے اپنے قوانین تمام نجی بینکوں کو پابند بناتے ہیں کہ ایک خاص رقم سے اوپر کی ٹرانزیکشن پر اسٹیٹ بینک کے مرکزی مانیٹرنگ یونٹ کو لازمی طور پر رپورٹ بھیجی جائے۔ ذرائع کے بقول دسمبر 2017ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز (سسپیشیئس ٹرانزیکشن رپورٹس) بھیجی گئیںجس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس تھے۔ ان 29 اکاؤنٹس میں 2015ء میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق ان ایس ٹی آرز کا مطلب یہ تھا کہ ان اکائونٹس سے رقوم کی مشکوک ترسیلات ہوئی ہیں جن پر تحقیقات کی ضرورت ہے، جس پر 21 جنوری 2018ء کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔ تحقیقات میں ابتدا میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی۔ اس انکوائری کے بعد ملک ریاض کے داماد زین ملک، اومنی گروپ کے انور مجید کے دو اکائونٹس افسران اسلم مسعود اور عارف خان کے علاوہ سمٹ بینک کے سابق صدر حسین لوائی، چیئرمین سمٹ بینک ناصر لوتھا، سمٹ بینک کے منیجر طہ رضا اور انور مجید سمیت دیگر کو ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو کی جانب سے نوٹس جاری کئے گئے تھے۔ جبکہ ان افراد کے نام ایف آئی اے امیگریشن کی اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالے گئے تاکہ انہیں بیرون ملک جانے سے روکا جاسکے۔
٭٭٭٭٭