سرفروش

عباس ثاقب
اسلم مجھے اپنے ساتھ دادر کے علاقے میں ایک طعام گاہ پر لے گیا اور اپنے وعدے کے مطابق انتہائی عمدہ ناشتہ کرایا۔ وہاں سے نکل کر اس نے مجھے ایک بار پھر رکشے میں بٹھایا اور بمبئی کی سیر کرانے نکل کھڑا ہوا۔ وہ خاصا باتونی تھا اور باتیں بھی بہت مزے کی کرتا تھا۔ اس نے مراٹھا مندر سینما میں شام کے فلم شو کا ٹکٹ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’یہ نہ سمجھنا کہ افتخار صاحب صرف آپ سے ملاقات کے لیے سینما آئیں گے۔ میں اور وہ، دونوں ہی مدھو بالا جی کے عاشق ہیں۔ دراصل اسی کی وجہ سے وہ آپ سے ملاقات کے بہانے تقریباً دسویں بار مغل اعظم دیکھنے مراٹھا مندر پہنچیں گے۔ میں بھی بارہ مرتبہ یہ فلم دیکھ چکا ہوں۔ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا…۔ یار جتنی بار دیکھو جی نہیں بھرتا۔ پھر دیکھنے کو دل کرتا ہے۔ کلر سین میں تو اس کے حسن نے پاگل کر دیا ہے پورے ہندستان کو!‘‘۔
میں نے اس کی وارفتگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا ’’میرے بھائی، پاکستان میں بھی مغل اعظم اور خصوصاً مدھو بالا کے ان گنت دیوانے موجود ہیں‘‘۔
اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا ’’کہیں آپ تو ہمارے رقیبوں میں شامل نہیں ہیں بھائی؟ شرمانے کی کوئی بات نہیں… وہ جادو ہی کیا جو سر چڑھ کے نہ بولے۔ لیکن صاحب، اس فلم نے تو ریلیز سے پہلے ہی پورے ہندستان کو دیوانہ کر دیا تھا۔ اسی سینما میں چار ماہ پہلے پریمیئر ہوا تھا اس فلم کا اور یہ ابھی تک ہاؤس فل چل رہی ہے۔ میں نے پہلا شو دیکھا تھا اور بتا نہیں سکتا کہ کس ماحول میں دیکھا تھا۔ ڈیڑھ روپے کا ٹکٹ ایک سو روپے میں خریدا تھا!‘‘۔
میں نے حقیقی حیرانی سے پوچھا ’’ایک سو روپے؟‘‘۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا ’’سمجھیں ایک کلرک کی دو ماہ کی تنخواہ… اور اتنا مہنگا ٹکٹ خریدنے کے باوجود سینما میں گھسنا قیامت ہو گیا تھا۔ ایک لاکھ کے لگ بھگ عوام اکٹھے ہوگئے تھے پہلے شو پر، جبکہ ٹکٹ تو بہت پہلے ختم ہو چکے تھے۔ کمشنر کو پولیس بلواکر ہجوم منتشر کرنا پڑا تھا۔ اس فلم کے ٹکٹ کئی ہفتے، بلکہ مہینوں پہلے بُک کروانے پڑتے تھے۔ وہ بھی کئی کئی دن قطاروں میں لگ کر۔ اس دوران میں ان کے گھر والے آکر کھانا دے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ مراٹھا مندر کی انتظامیہ کو تین ہفتوں کے لیے ایڈوانس بکنگ بند کرنا پڑگئی تھی‘‘۔
میں نے اس موضوع میں اس کی گہری دلچسپی محسوس کرتے ہوئے پوچھا ’’لیکن سنا ہے دلیپ کمار نے فلم کے پریمیئر شو میں شرکت نہیں کی تھی؟ کیا یہ سچ ہے؟‘‘۔
’’ہاں، فلم کے ہدایت کار کے آصف سے اس کا جھگڑا ہوگیا تھا۔ پروگرام کے مطابق اسے جنگی انداز میں سجے ہاتھی پر پورے جاہ و جلال کے ساتھ سینما ہال لایا جانا تھا، لیکن اس نے آنے سے انکار کیا تو اس ہاتھی پر فلم کی ریلیں سینما پہنچائی گئی تھیں۔ پتا ہے سینما کے سامنے مغل اعظم یعنی پرتھوی راج کپور کا چالیس فٹ کٹ آؤٹ کھڑا کیا گیا تھا اور فلم میں استعمال ہونے والا شیش محل کا سیٹ بھی سینما میں لگا دیا گیا، جس میں صرف ٹکٹ خریدنے والوں کو داخلے کی اجازت تھی۔ میں بھی اندر گیا تھا‘‘۔
فلم مغل اعظم کی تعریف، اور اس کے بہانے مدھو بالا سے اپنی وارفتگی و شیفتگی جتانے کا سلسلہ اس نے مجھے واپس میرے گھر چھوڑنے تک جاری رکھا اور میں بھی اس کی دلجوئی کے لیے گہری دلچسپی کا مظاہرہ کرتا رہا۔ اچھی خاصی پکی عمر اور ایک حساس ذمہ داری سے وابستہ ہونے کے باوجود اپنی اس کیفیت کے حوالے سے تو وہ مجھے دل کے ہاتھوں مجبور لگا۔
اسلم نے رخصت ہوتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ عموماً بطور آٹو ڈرائیور ہی اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ اس نے ایک آٹو ورکشاپ کا پتا بھی مجھے سمجھایا، جہاں ’’اسلم بابو‘‘ کے نام دیا گیا کوئی بھی پیغام اسی شام یا اگلی صبح اس تک پہنچ جاتا ہے۔
اگلے روز میں شو کے مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے ہی مراٹھا مندر پہنچ گیا۔ اسلم کے بیان کے عین مطابق سینما پر مغل اعظم کے حوالے سے خصوصی سجاوٹ اب بھی برقرار تھی اور ہاؤس فل کا بورڈ بھی دور سے ہی نظر آ رہا تھا۔ سینما کی عمارت کے قریب پہنچتے ہی ٹکٹ بلیک کرنے والے دو افراد نے یکے بعد دیگر ے مجھے ٹکٹ کی پیشکش کی۔ میں انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اندر داخل ہوا اور سیدھا گیلری کی بالکل آخری قطار میں واقع اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔
وہ سینما میرے اندازے سے کہیں بڑا نکلا۔ میرے اندازے کے مطابق کم ازکم بارہ تیرہ سو سیٹیں تھیں۔ اس وقت تک ہال روشن تھا اورزیادہ تر سیٹیں خالی تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد دو افراد میرے بائیں طرف والی نشستوں پر براجمان ہوگئے۔ میں نے کنکھیوں سے دیکھا۔ ان میں سے ایک چالیس، جبکہ دوسرا پچیس چھبیس سال کا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ دونوں بے تکلفی سے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہال بھرنے لگا۔ حتیٰ کہ فلم شو کا وقت ہو گیا۔ روشنیاں بند ہونے تک میرے دائیں ہاتھ والی دو نشستیں خالی رہیں۔
کچھ ہی دیر بعد ٹکٹ چیکر ٹارچ کی روشنی میں راستہ دکھاتے ہوئے دو افراد ساتھ لے کر آیا اور انہیں میرے دائیں طرف والی سیٹوں پر بٹھا کر چلا گیا۔ میرا دل زور سے دھڑکا۔ تاہم میں نے افتخار محمود کی طرف دیکھنے کے بجائے ان کی طرف سے پیش رفت کا انتظار کیا۔ کچھ ہی دیر میںکشادہ سفید پردے پر سازینوں کے پس منظر کے ساتھ فلم کے ٹائٹل چلنا شروع ہوئے۔ عین اسی وقت افتخار محمود نے کرسی کے ہتھے پر رکھے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر میرے کان میں کہا ’’شاباش میرے بچے، دل خوش کردیا تم نے‘‘۔ سینما ہال میں موسیقی کے شور کے باوجود میں ان کی گفتگو کا ہر لفظ باآسانی سن اور سمجھ رہا تھا۔ لیکن مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ بائیں طرف براجمان صاحب کے کانوں میں بھی ہماری گفتگو کے الفاظ پڑ سکتے ہیں، لہٰذا میں نے ان سے بھی نیچی آواز میں ان کا شکریہ ادا کیا۔
اس پر انہوں نے میرا ہاتھ تھپتھپاکر اطمینان دلایا ’’بے فکر ہوکر بات کرو۔ دوسری طرف بیٹھے دونوں افراد بھی اپنے ہی ساتھی ہیں۔ پیچھے دیوار ہے اور سامنے والوں تک ہماری آواز نہیں پہنچے گی‘‘۔
میں نے ان کی بات سن کر سکون کا سانس لیا۔ انہوں نے بات آگے بڑھائی ’’دیکھو چھوٹے بھائی، میرے پاس تم سے تفصیل سے بات کرنے کا شاید یہ پہلا اور آخری موقع ہے۔ لہٰذا میری ساری باتیں غور سے سن کر اچھی طرح ذہن نشیں کرلو۔ اس کے بعد تو اسلم کے ذریعے ہی رابطہ ہو سکے گا‘‘۔ میں نے انہیں اطمینان دلایا کہ میں ہمہ تن گوش ہوں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment