معارف و مسائل
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ… الخ: فواد کے معنی قلب اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہے، قلب نے بھی اس کے ادراک میں کوئی غلطی نہیں کی، اسی
غلطی اور خطاء کو آیت میں لفظ کذب سے تعبیر کیا ہے جو ’’کچھ دیکھا‘‘ قرآن کے الفاظ نے یہ متعین نہیں کیا کہ کیا دیکھا؟ اس کی تفسیر میں صحابہ و تابعین اور ائمہ تفسیر کے وہی دو قول ہیں، جو اوپر تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں کہ بعض کے نزدیک خود حق تعالیٰ کو دیکھنا مراد ہے (وہو قول ابن عباسؓ) اور بعض کے نزدیک جبرئیل امینؑ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنا مراد ہے (وہو قول عائشۃؓ و ابن عباسؓ) اور بعض کے نزدیک جبرئیل امینؑ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنا مراد ہے (وہو قول عائشۃؓ و ابن مسعودؓ وابی ہریرۃؓ وابی ذرالغفاریؓ) اس تفسیر کے مطابق لفظ رایٰ اپنے حقیقی معنی کے مطابق آنکھ سے دیکھنے کے لئے بولا گیا اور دیکھنے کے بعد ادراک و فہم جو قلب کا کام ہے، وہ قلب کی طرف منسوب ہوا، رؤیت کو مجازی طور پر رؤیت قلبیہ کے معنی میں لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ (کما فی القرطبی)
رہا یہ سوال کہ آیت میں ادراک کی نسبت قلب کی طرف کی ہے، حالانکہ مشہور حکماء کا قول ہے کہ ادراک کا تعلق عقل یا نفس ناطقہ سے ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ادراک و فہم کا اصل مرکز قلب ہے، اس لئے کبھی عقل کو بھی لفظ قلب سے تعبیر کردیا ہے، جیسے آیت ’’لِمَنْ کَانَ لَہ…‘‘ میں قلب سے مراد عقل لی گئی ہے، کیونکہ قلب مرکز عقل ہے، آیات قرآنیہ لَھُمْ قُلُوْب… وغیرہ اس پر شاہد ہیں۔
وَلَقَدْ رَاٰیٰ … الخ: یہاں بھی رَاٰی کی ضمیر میں وہی دو قول ہیں کہ حق تعالیٰ مراد ہیں یا جبرئیل امین۔ نَزْلَۃً اُخْرٰی کے معنی دوسری مرتبہ کا نزول ہے، راجح تفسیر کے مطابق یہ نزول بھی جبرئیل امینؑ کا ہے اور جیسا کہ پہلی رؤیت کا مقام قرآن کریم نے اسی عالم دنیا میں مکہ مکرمہ کا افق اعلیٰ بتلایا تھا، اسی طرح اس دوسری رؤیت کا مقام ساتویں آسمان میں سدرۃ المنتہیٰ بتلایا اور یہ ظاہر ہے کہ ساتویں آسمان پر رسول اقدسؐ کا تشریف لے جانا شب معراج میں ہوا ہے، اس سے اس دوسری رؤیت کا وقت بھی فی الجملہ متعین ہو جاتا ہے، سدرہ لغت میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں اور منتہیٰ کے معنی انتہا کی جگہ، ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے نیچے یہ بیری کا درخت ہے، مسلم کی روایت میں اس کو چھٹے آسمان پر بتلایا اور دونوں روایتوں کی تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر اور شاخیں ساتویں آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں (قرطبی) اور عام فرشتوں کی رسائی کی یہ آخری حد ہے، اسی لئے اس کو منتہیٰ کہتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭