امام محمد غزالیؒ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا، جو ہر وقت عبادت میں مشغول رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک جماعت اس کے پاس آئی اور کہا کہ یہاں ایک قوم ہے، جو ایک درخت کو پوجتی ہے۔ یہ سن کر اس کو غصہ آیا اور کلہاڑا کندھے پر رکھ کر اس کو کاٹنے کیلئے چل دیا۔ راستے میں اسے شیطان ایک پیر مرد کی صورت میں ملا۔ عابد سے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا فلاں درخت کو کاٹنے جارہا ہوں۔ شیطان نے کہا: تمہیں اس درخت سے کیا غرض، تم اپنی عبادت میں مشغول رہو۔ تم نے اپنی عبادت کو ایک مہمل اور بے کار کام کیلئے چھوڑ دیا۔ عابد نے کہا لوگوں کو شرک سے بچانا یہ بڑی عبادت ہے۔
شیطان نے کہا: میں تمہیں نہیں کاٹنے دوں گا، پھر دونوں کا مقابلہ ہوا، وہ عابد اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ شیطان نے اپنے کو عاجز دیکھ کر خوشامد کی اور کہا کہ اچھا ایک بات سن لے۔ عابد نے اس کو چھوڑ دیا۔ شیطان نے کہا: خدا نے تجھ پر اس درخت کو کاٹنا فرض تو کیا نہیں، تیرا اس سے کوئی نقصان نہیں تو اس کی پرستش و پوجا نہیں کرتا۔ خدا کے بہت سے نبی ہیں، اگر وہ چاہتا تو کسی نبی کے ذریعے اس کو کٹوا دیتا۔ عابد نے کہا میں ضرور کاٹوں گا۔ پھر دونوں میں مقابلہ ہوا، وہ عابد پھر اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ شیطان نے کہا اچھا سن، ایک فیصلہ کن بات جو میں تیرے نفع کی کہوں گا۔ عابد نے کہا کہہ۔ شیطان نے کہا کہ تو غریب آدمی ہے۔ دنیا پر بوجھ بنا ہوا ہے تو اس کام سے باز آ۔ میں تجھے روزانہ تین دینار دیا کروں گا، جو روزانہ تیرے سرہانے کے نیچے رکھے ہوئے ملا کریں گے۔ تیری بھی ضرورتیں پوری ہو جایا کریں گی، اپنے اعزہ و اقارب پر بھی احسان کر سکے گا۔ فقیروں کی بھی مدد کرسکے گا اور بہت سے ثواب کے کام حاصل کرے گا۔ درخت کاٹنے میں تو فقط ایک ہی ثواب ہوگا اور وہ بھی رائیگاں جائے گا، وہ لوگ پھر دوسرا درخت لگالیں گے۔ عابد کو سمجھ میں آگیا (کسی نے پنجابی میں کیا خوب کہا ہے ’’جدوں رب رسے تے مت کھسے‘‘ یعنی جب رب ناراض ہو تو عقل ختم ہو جاتی ہے) اس عابد نے قبول کرلیا اور گھر آگیا۔ دو دن تک دینار تکیے کے نیچے سے ملے، تیسرے دن کچھ بھی نہ ملا۔ عابد کو پھر غصہ آیا اور اسی طرح کلہاڑا لے کر چلا، راستہ میں وہ بوڑھا اسے پھر ملا، تو پوچھا جناب کہاں جا رہے ہو؟ عابد نے کہا کہ اسی درخت کو کاٹنے جا رہا ہوں۔ بوڑھے نے کہا تو اس کو نہیں کاٹ سکتا۔ دونوں میں لڑائی ہوئی اور وہ بوڑھا (یعنی شیطان) غالب آگیا اور عابد کے سینے پر چڑھ گیا۔ عابد کو بڑا ہی تعجب ہوا۔ اس سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ تو اس مرتبہ غالب آگیا؟ شیطان نے کہا کہ پہلی مرتبہ تیرا غصہ خالص خدا کیلئے تھا، اس لئے خدا نے مجھے مغلوب کردیا اور تجھے غالب۔ اس مرتبہ تیرے دل میں دیناروں کا دخل تھا۔ خدا کی رضا اور اخلاص نہ تھا، اس لئے تو مغلوب ہوا اور میں غالب۔
حق یہ ہے کہ جو بھی کام اخلاص اور رب تعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے کیا جائے تو اس میں بڑی قوت و برکت ہوتی ہے اور جس کام میں حرص و لالچ کا دخل ہو، اس عمل میں کوئی طاقت اور برکت نہیں ہوتی، جیسا کہ اس مذکورہ واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ (فضائل ذکر ص 514)
خلوص نیت کا مطلب یہ ہے کہ مطلوبہ کام صرف اور صرف رب تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کیا جائے، جس میں تصنع اور ریاکاری اور کسی قسم کے لالچ کا دخل نہ ہو۔ نیت میں اخلاص کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اعمال روشن، وزنی اور قابل قبول ہوں گے۔ بصورت دیگر اعمال صرف ڈھانچے بن کر رہیں گے۔ جس طرح اعضائے بدن کی کارکردگی روح پر منحصر ہے، اسی طرح اعمال صالحہ بھی خلوص نیت پر موقوف ہیں۔ حضور اقدسؐ کا فرمان مبارک ہے: اعمال کے زندہ ہونے کا مدار بلاشک نیتوں پر ہے۔ مسجد میں جاتے وقت اگر کوئی اپنے جوتوں کی حفاظت اس لئے کرتا ہے کہ مبادا کوئی اپنی عاقبت خراب نہ کر بیٹھے یا مکان بناتے وقت روشندان اس لئے رکھتا ہے کہ اذان کی آواز بھی سنائی دے، تو یہ عمل اس کیلئے عمل ثواب اور عمل بقا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ روز قیامت اعمال گننے کے بجائے اعمال تولے جائیں گے۔ علی ہذا القیاس اخلاص نیت کے ہوتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بڑا اور عدم اخلاص کی صورت میں بڑا عمل بھی چھوٹا اور بے وزن ثابت ہو گا۔
٭٭٭٭٭