نواب مرزا کو بطور شاعر اپنی شناخت بنانے کی لگ گئی

وزیر خانم کے معمول کچھ بدل گئے تھے۔ اسے وقت کا اندازہ بھی ٹھیک سے نہ ہوتا تھا۔ حبیبہ کے بار بار کہنے پر بھی وقت پر کھانا نہ کھاتی۔ کئی بار تو کھانا رکھا رکھا ٹھنڈا ہو کر آخر اٹھا دیا جاتا۔ نواب مرزا کو کھانا کھلانا کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ دن کا کھانا گھر میں کھاتا نہ تھا اور رات کے کھانے کے لئے کوئی تخصیص نہ تھی۔ وہ جب گھر آتا اور جب اسے بھوک لگتی، حبیبہ سے کھانا مانگ لیتا۔ ماں کی حالت اس سے پوشیدہ نہ تھی لیکن اس حالت کو سدھارا کیونکر جائے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ چودہ برس کی عمر میں لوگ شادی شدہ اور گھر گرہستی والے بن جاتے ہیں، لیکن نواب مرزا کی طرف سے کوئی خفیف سا اشارہ یا اس کے طور طریقوں میں کوئی معمولی سی بات بھی ایسی نظر نہ آتی تھی جس سے پتہ لگتا کہ وہ شادی کی طرف کوئی میلان رکھتا ہے۔ وزیر کو رہ رہ کے خیال آتا کہ نواب مرزا کی بارات اب چڑھ جانا چاہئے، لیکن کسی نامعلوم ذہنی رکاوٹ کے باعث وہ نواب مرزا سے اس معاملے میں سرسری، ابتدائی گفتگو کرنے پر خود کو آمادہ نہ دیکھتی تھی۔ یوں تو اس عمر، اور اس زمانے میں، اور نواب مرزا ایسے بے حد خوبصورت جوان کے لیے معاشقوں کے دروازے ہر طرف کھلے ہوئے تھے، اور دل لگانے کے امکانات بے نہایت تھے اور نواب مرزا کی پرنانی کا گھرانہ بھی تھا، جہاں کبھی کبھی وہ رسماً جا نکلتا تھا۔ لیکن کہیں پر دل اٹکنے کا سلسلہ ابھی پیدا نہ ہوا تھا۔
نواب مرزا کی تعلیم البتہ اب رک گئی تھی۔ کچھ تو اس وجہ سے کہ ملا غیاث صاحب رامپوری کی عمدہ تعلیم اور انتھک محنت کی دولت سے وہ فارسی اور تاریخ و فلسفہ میں اپنے ہم عمروں سے بڑھ کر تھا، اور کچھ اس وجہ سے کہ اب اسے بطور شاعر اپنی شناخت قائم کرنے کی لگی تھی۔ اسے یقین تھا کہ میں بہت اچھا شاعر بن سکتا ہوں اور بہت جلد استاد کا مرتبہ حاصل کر لوں گا۔ اسے شعر کہنے میں مزہ آتا تھا اور شعر پڑھنے میں بھی اتنا ہی، بلکہ اس سے بھی کچھ سوا مزہ آتا تھا۔ اس نے اپنی قوت حافظہ کی دولت سے اپنے ہم چشموں میں اپنا سکہ بٹھا رکھا تھا، کہ پرانے فارسی استادوں سے لے کر میرزا غالب تک، اور ہندی میں حضرت میر تقی میر سے لے کر استاد ذوق تک اساتذ کے ہزارہا شعر اس کو یاد تھے۔ سند دینے میں تو یگانہ روزگار تھا، کہ اس کے کسی شعر میں کسی ترکیب یا فقرے یا لفظ کے استعمال پر کسی دوست یا شریک محفل نے کچھ تردد ظاہر کیا، اور ادھر اس نے بے کھٹکے ریختہ یا فارسی کے کسی مسلم الثبوت استاد کی سند پیش کی اور معترض اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ حال ہی میں نواب مرزا کا ایک شعر بہت مشہور ہوا تھا
ہو نہ کیوں بام بلند دوست پر اپنی نگاہ
کب بنے ہے پستیوں میں آشیان شاہباز
شعر تو اچھا تھا ہی، لیکن اس کی مزید وجہ شہرت یوں ہوئی کہ اطراف بداؤں کے ایک سید زادے، صاحب دل اور صوفی مزاج شاعر سید دلدار علی مذاق ان دنوں دہلی آکر تازہ تازہ خاقانی ہند کے شاگرد ہوئے تھے۔ استاد کے وہ اس درجہ معتقد تھے، اگرچہ غائبانہ، کہ انہوں نے استاد کی مناسبت سے اپنا تخلص مذاق قرار دیا تھا۔ چنانچہ وہ شاگردی کی نیت سے حاضر آستانہ استاد ہوئے تو حسب ذیل شعر بھی انہوں نے خدمت میں پیش کیا۔
ذوق تھا یہ ترے تلمذ کا
کہ تخلص کیا مذاق اپنا
حضرت خاقانی ہند کمال مسرور ہوئے اور مذاق کو سلسلہ ذوق میں داخل کیا۔ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ مورخہ 15 دسمبر 1844 میں خبر شائع ہوئی: ’’ان دنوں ایک شاعر مسافر یہاں وارد ہوئے ہیں۔ ہم سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔ نہایت ذہین و فطین ہیں، فن شعر میں دستگاہ لائق رکھتے ہیں۔ نام ان کا مولوی دلدار صاحب اور وطن شہر بدایوں ہے جو کہ مولد حضرت سلطان جی صاحب قدس سرہ کا ہے۔ حقیقت میں وہاں کی خاک آدم خیز ہے اور اکثر اہل دل وہاں کے سنے گئے ہیں۔ قرابت قریبہ ظہور اللہ خاں نوا، سے رکھتے ہیں، جو شاعر نامی ہم عصر مرزاؒ کے صاحب دیوان ہندی و فارسی تھے۔ تین چار بار ہم سے ان سے ملاقات ہوئی۔ بعض اشعار حسب فرمائش حضار عین جلسہ احباب میں کہے اور سنائے۔ غرض اتنا تیز طبع، صاحب ذن سلیم کم دیکھنے میں آیا‘‘۔
اتفاق کی بات کہ ایسی ہی کسی محفل میں نواب مرزا بھی موجود تھے۔ نواب شمس الدین احمد شہید کی فرزندی اور خاندان لوہارو سے نسبت کے باعث سبھی انہیں جانتے تھے، اور یہ بھی جانتے تھے کہ نواب مرزا داغ ہر چند کہ مملکت سخن میں نو وارد ہیں، لیکن خم و پیچ سے اس کی راہوں کے خوب ماہر ہیں۔ مذاق صاحب نے جب اپنے شعر سنا لئے تو دہلی کے شعرا سے بھی درخواست کی گئی۔ سب سے آخر میں نواب مرزا نے غزل پڑھی۔ جب وہ منقولہ بالا شعر پر پہنچے تو انہوں نے ایک صاحب کو پہلو بدلتے دیکھا۔ یہ حکیم غلام مولا قلق میرٹھی تھے۔ ریختہ میں مومن کے شاگرد اور مومن ہی کی طرح فارسی تراکیب کے دلدادہ۔ فارسیت کا رنگ اس لئے اور بھی چوکھا تھا کہ فارسی میں مولانا صہبائی ان کے استاد تھے۔ جب داغ کی غزل ختم ہوئی اور محفل برخاست ہونے کو ہوئی تو نواب مرزا نے حکیم صاحب کے پاس جا کر تسلیم کی اور اپنے مخصوص شیرں لہجے میں پوچھا جس پر رامپوری پٹھانی رنگ بہت خفیف سا تھا اور بھلا معلوم ہوتا تھا: ’’بندے نے قبلہ کو کچھ پہلو بدلتے دیکھا تھا۔ اگر خادم کی کسی بیت میں کچھ خامی ملاحظے میں آئی ہو تو ملتمس ہوں کہ اپنی کوتاہی پر مطلع فرمایا جاؤں‘‘۔
حکیم غلام مولا قلق صاحب کی طبیعت میں حیا بہت تھی، اور اسی لئے انہوں نے داغ کو برسر محفل نہ ٹوکا تھا۔ اب جو داغ نے براہ راست انہیں مخاطب کر لیا تو وہ ایک ذرا چپ رہے، پھر متانت سے بولے ’’جی، خامی تو کچھ نہیں، ایک اشکال البتہ تھا‘‘۔
اب تمام اہل محفل جانا ملتوی کرکے جہاں جہاں تھے وہیں متوجہ ہوگئے۔ ’’جی ارشاد۔ ہمہ تن گوش ہوں‘‘۔ نواب مرزا نے خاکساری کے لہجے میں کہا۔
حکیم صاحب کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ انہیں کچھ پچھتاوا سا ہے کہ میں نے اشکال کی بات کیوں کہی۔ کہہ دیتا، نہیں کوئی بات نہیں۔ تو معاملہ ختم ہوجاتا۔ اب انہیں کہنا ہی پڑا: ’’میاں صاحب، اشکال بس اتنا سا ہے کہ ’’ آشیان شاہباز‘‘ کی ترکیب تو خوب ہے، لیکن شہباز کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ آشیاں بناتا ہی نہیں، اس لئے…‘‘۔ فرط حیا سے حکیم صاحب خاموش ہو رہے۔
’’حضور کی کرم ارزانی ہے کہ اس قدر توجہ فرماتے ہیں، لیکن آشیان شاہباز کی ترکیب کلیم ہمدانی نے باندھی ہے۔ ملاحظہ ہو‘‘۔ یہ کہہ کر داغ نے بڑی کھلی ہوئی شستہ آواز میں شعر پڑھا
از نشان خون ناحق کشتگاں او را چہ باک
بال کنجشک است فرش آشیان شاہباز
کچھ تو کلیم ہمدانی کے شعر کی خوبی، اور کچھ برجستہ سند کی تحسین، حضار مجلس سے داد کا غلغلہ اٹھا۔ حکیم صاحب نے آگے بڑھ کر داغ کو گلے سے لگا لیا اور بولے: ’سبحان اللہ، خدا خوش رکھے۔ کیا بے تکلف سند دی اور کیا عمدہ شعر پڑھا۔ میں استاد کی بھی مجلس میں آپ کا ذکر کروں گا۔ یوں ہی شعر کہتے رہیں، آپ انشاء اللہ العزیز دلی کی آبرو ہوں گے‘‘۔
حکیم غلام مولا قلق تو کلیم ہمدانی کا شعر زیر لب گنگناتے ہوئے رخصت ہوئے، ادھر میر دلدار علی مذاق نے نواب مرزا کی پیٹھ ٹھونکی اور کہا ’’بداؤں مراجعت سے پہلے آپ سے مزید ایک ملاقات کا متمنی رہوں گا‘‘۔ دل میں انہوں نے یہ بھی سوچا کہ میں بھی آج ہی استاد سے ان صاحب زادے کا تذکرہ کروں گا۔ ایسا نہ ہو حکیم صاحب انہیں مومن خاں صاحب کا شاگرد بنوا دیں۔ انہیں تو ہمارا استاد بھائی بننا چاہئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment