علی جہانگیر صدیقی کے مستقبل کے لئے 48 گھنٹے اہم

نجم الحسن عارف
امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر علی جہانگیر صدیقی کے مستقبل کا فیصلہ آئندہ 48 گھنٹے میں ہونے کا امکان ہے۔ علی جہانگیر کو 27 اگست کو نیب میں پیش ہونے کا نوٹس موصول ہو گیا ہے۔ تاہم منتقلی اقتدار کے پیش نظر وہ تاحال وطن واپسی کا فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔ جبکہ آج وزیر اعظم منتخب ہونے والے عمران خان عہدے سنبھالتے ہی انہیں برطرف کر سکتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق علی جہانگیر صدیقی کو نیب میں پیش ہونے کا نوٹس آٹھ اگست کو واشنگٹن ارسال کیا گیا تھا۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق علی جہانگیر صدیقی کو نیب میں تو پیش ہونا ہی ہو گا، تاہم اس امر کا فیصلہ نئی حکومت بننے کے فوری بعد ہوگا کہ وہ نیب کے سامنے سفیر برائے امریکہ کی حیثیت سے پیش ہوں گے یا سابق سفیر کے طور پر ان کی حاضری ہوگی۔ ان ذرائع نے بتایا کہ جیسے ہی نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہو گا اور حکومت قائم ہو گی تو جو تین چار فائلیں سب سے پہلے پیش کی جائیں گی، تاکہ وہ اس پر احکامات جاری کئے جائیں، ان میں ’’نان کیریئر‘‘ سفیروں کے مستقبل کے بارے میں بھی ایک فائل ہو گی، جس میں علی جہانگیر صدیقی کا نام شامل ہوگا۔ یہ وزیراعظم کے اختیارات میں شامل ہے کہ وہ ’’نان کیریئر‘‘ سفیروں کا فیصلہ کریں کہ انہیں منصب سفارت پر باقی رکھنا ہے یا نہیں۔ ان ذرائع کے مطابق عام طور پر ایسے سفرا جنہیں ایک حکومت خالصتاً سیاسی یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر مقرر کرتی ہے، وہ نئی حکومت آنے پر اخلاقی بنیادوں پر خود ہی فیصلہ کر کے منصب سفارت چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن دفتر خارجہ کے ذرائع کے بقول علی جہانگیر صدیقی یا کسی اور ’’نان کیریئر‘‘ نے خود مستعفی ہونے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ البتہ اس حوالے سے اگلے 48 گھنٹے انتہائی اہم ہوں گے۔
واضح رہے کہ علی جہانگیر صدیقی کو نیب نے اس سے پہلے بھی چالیس ارب روپے کی ہیرا پھیری اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات سے متعلق شکایات پر مارچ میں طلب کیا تھا، جہاں ان سے کئی گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ انہوں نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں ماہ مئی میں اس وقت سنبھالیں، جب سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومتی مدت مکمل ہونے میں محض چند روز باقی تھے۔ خیال رہے علی جہانگیر صدیقی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے کاروباری شراکت دار ہیں، اور اسی بنیاد پر شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد انہیں اپنے مشیران اور معاونین میں شامل کیا اور بعد ازاں امریکہ میں سفیر مقرر کر دیا۔ وزیراعظم نے تمام تر تنقید اور علی جہانگیر کی تمام تر ناتجربہ کاری کے باوجود امریکہ جیسے اہم ملک میں سفیر بنا کر بھیج دیا۔ اس امر کا بھی لحاظ نہ کیا گیا کہ علی جہانگیر کے خلاف نیب میں کرپشن سے متعلق شکایات بھی موجود ہیں۔
نیب نے جب پوچھ گچھ کیلئے علی جہانگیر صدیقی کو 22 مارچ کو طلب کیا تھا تو وہ اپنے جوابات سے نیب ٹیم کو مطمئن نہیں کر سکے تھے۔ نیب نے ان سے اپنی کمپنی کے حصص سرکاری اداروں کو مہنگے داموں بیچنے پر پوچھ گچھ کی تھی۔ اب اسی سلسلے میں علی جہانگیر صدیقی کو نیب نے دوبارہ 27 اگست کو طلب کیا ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق ابھی علی جہانگیر نے اپنی حاضری کے بارے میں کنفرم نہیں کیا، تاہم وہ 27 اگست کو نہ آئے تو نیب ان کے خلاف کارروائی کو بڑھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق تقریباً 2 ہفتوں کا وقت اسی لیے دیا گیا ہے کہ علی جہانگیر صدیقی کے پاس حاضر نہ ہونے کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہ رہے اور پندرہ دنوں کے دوران اپنی پہلے سے طے شدہ مصروفیات کو بآسانی مکمل کر سکیں۔ اس لیے پندرہ دنوں میں بھی وہ فرصت نہیں پاتے تو نیب کو قانون کے مطابق کارروائی کا اختیار موجود ہو گا۔
دوسری جانب نیب کے ذرائع نے ایک سوال پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ علی جہانگیر صدیقی کو براہ راست نوٹس بھیجا گیا ہے یا سیکریٹری خارجہ کے توسط سے نوٹس ارسال کیا گیا ہے۔ علی جہانگیر صدیقی کو بہرحال نیب میں پیش ہونا پڑے گا۔ اور جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ علی جہانگیر صدیقی نے ابھی اس سلسلے میں پاکستان آنے سے دفتر خارجہ کو آگاہ کیا ہے یا سیکریٹری خارجہ سے رخصت لی ہے یا نہیں، تو ابھی تک ایسی کوئی درخواست دفتر خارجہ یا سیکریٹری خارجہ کو موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس کی نوبت تب آئے گی جب نئی حکومت نے علی جہانگیر صدیقی کو اس منصب پر بحال رکھنے کا فیصلہ کیا اور ان کو امریکہ میں سفیر رہنے دینے کا فیصلہ کیا۔ بصورت دیگر نئی حکومت کے ابتدائی تین چار فیصلوں میں سے ایک فیصلہ علی جہانگیر صدیقی اور دوسرے مجموعی طور پر 19 سفیروں اور ہائی کمشنروں کے بارے میں ہو گا کہ انہیں فوری طور پر سفارتی منصب سے الگ کیا جارہا ہے۔ اگر یہ فیصلہ آتا ہے تو علی جہانگیر صدیقی کو دفتر خارجہ سے یا سیکریٹری خارجہ سے رخصت لینے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
ادھر واشنگٹن میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ 27 اگست کو نیب میں طلبی کا نوٹس دفتر خارجہ کے توسط سے موصول ہوئے کئی دن ہو چکے ہیں لیکن ابھی سفیر نے نیب میں اس پیشی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ نہ ہی اس پس منظر میں یا نئی حکومت کے قیام کے پیش نظر امریکہ میں پاکستانی سفیر نے ابھی سے اپنی مستقل واپسی کے بارے میں کوئی عندیہ دیا ہے اور نہ ہی سفارت خانے میں کوئی ’’پیکنگ‘‘ ہوتی نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ عیدالاضحیٰ پاکستان جاکر مانے کے حوالے سے بھی علی جہانگیر صدیقی نے اپنی ٹیم اور رفقا کو کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ بظاہر سب معمول کے مطابق چل رہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment