چوہدری نثار سیاست چھوڑنے کا اعلان کرسکتے ہیں

امت رپورٹ
الیکشن 2018ء نے چوہدری نثار علی خان کو قومی سے صوبائی سطح کا لیڈر بنا دیا ہے۔ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار سیاست سے ریٹائرمنٹ لینے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد امکان ہے کہ وہ ملک سے باہر چلے جائیں۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیر داخلہ کو مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ واضح رہے کہ چوہدری نثار پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 10 سے منتخب ہوئے ہیں، لیکن وہ اب تک پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے نہیں گئے ہیں۔ ان کے ساتھ قربت رکھنے والے نون لیگی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی سیاست ان کی اپنی انا نے ہی ختم کی ہے۔ وہ جھکنا نہیں جانتے تھے، اس لیے اب ٹوٹ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ چوہدری نثار 1988ء کی اسمبلی میں پہلی بار مسلم لیگ (ن) کے رکن کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں آئے تھے۔ وہ نواز شریف کی کچن کیبنٹ کے اہم ترین رکن رہے۔ نون لیگ کے ہی ایک رہنما کے بقول نواز شریف کی کابینہ میں کم سے کم چار ’’وزرائے اعظم‘‘ ہوتے تھے، جن میں سے ایک لازماً چوہدری نثار علی خان ہوا کرتے تھے۔ وہ وزیر اعظم کے فیصلوں کو بھی ویٹو کر دیا کرتے تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں نواز لیگ نے اپنی قیادت حمزہ شہباز کو دے دی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق اگر چوہدری نثار نون لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے تو شاید پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت ان کے پاس ہوتی اور وہ پنجاب میں حکومت بنانے کی کوششیں کر رہے ہوتے۔ کیونکہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننا ان کی خواہش تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 2013ء کے انتخابات نے چوہدری نثار علی خان کی نواز لیگ میںکلیدی حیثیت کو شدید نقصان پہنچایا۔ سینیٹر پرویز رشید اور خواجہ آصف سے اختلاف نے انہیں نواز شریف سے بھی دور کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے نئے حریف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان انہیں پارٹی میں آنے کی دعوت دیتے رہے۔ تاہم چوہدری نثار نواز لیگ کو چھوڑنا بھی چاہتے تھے، اور عمران خان کو بھی خفا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اب وہ نہ مسلم لیگ (ن) کے رہے اور نہ ہی تحریک انصاف کی حمایت حاصل کر سکے اور قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے شکست کھاگئے۔ ذرائع کے بقول دو مختلف سمت میں جانے والی کشتیوں میں سفر کرنے کی خواہش کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ شہباز شریف کوششیں کرتے رہے کہ چوہدری نثار علی خان اپنی انا کا بت توڑ کر ایک بار نواز شریف سے مل لیں تو معاملات کچھ بہتر ہوجائیں۔ لیکن چوہدری نثار نے نواز شریف سے ملاقات کو اپنی شان کے خلاف سمجھا۔ ان سے کہا گیا کہ ٹکٹ کے لیے درخواست دے دیں تو یہ عمل بھی ان کی شان میں کمی لارہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے مقابلے پر قمرالاسلام کو کھڑا کیا گیا، جو کرپشن کے مقدمے میں گرفتار ہوئے تو ان کے 12 سالہ بیٹے کو چوہدری نثار کے مقابلے پر لایا گیا۔ نتیجتاً نہ چوہدری نثار جیتے اور نہ ہی قمر الالسلام کوئی نمایاں پوزیشن لے سکے۔ میدان تحریک انصاف کے غلام سرور خان کے ہاتھ رہا، جو پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اور 2013ء میں بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن میں کامیابی حاصل کر چکے تھے۔ ایک سوال پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے بتایا کہ چوہدری نثار علی خان کے لیے تحریک انصاف میں بھی کوئی نمایاں جگہ نہیں تھی۔ وہ اگر وہاں جاتے تو انہیں اور بابر اعوان کو ایک ہی سطح کا لیڈر مانا جاتا۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ اس وقت نواز لیگ کو چوہدری نثار علی خان جیسے کسی لیڈر کی ضرورت ہے، جو بطور اپوزیشن لیڈر پارٹی کو یکجا رکھ سکے۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ نواز لیگ کے قائدین اور چوہدری نثار کے درمیان اعتماد کے رشتے کو سخت ٹھیس پہنچ چکی ہے۔ ایک اور سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ اگرچہ چوہدری نثار نے اب تک پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا ہے لیکن کہا جارہا ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کے ساتھ احمد علی اولکھ اور نجم سیٹھی کی بیوی جگنو محسن نے بھی پی ٹی آئی کے وزارت علیا کے امیدوار کو ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے ساتھ راہ حق پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی معاویہ اعظم جو اعظم طارق کے صاحبزادے ہیں، نے بھی تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان کو ملکی سیاست میں واپس آنے کے لیے اپنی پنجاب اسمبلی کی نشست کو بچانا ہوگا۔ لیکن اس اسمبلی میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ نومنتخب اسپیکر پرویز الہی ان کے دوست ہیں۔ خواجہ سعد رفیق چوہدری نثار کی عزت کرتے ہیں، وہ بھی اسی اسمبلی میں موجود ہیں۔ یہ دونوں حضرات تو کبھی نہ کبھی پنجاب اسمبلی کے رکن رہے ہیں، لیکن چوہدری نثار پہلی بار صوبائی اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔ اس سے قبل وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب تو ہوتے رہے لیکن انہوں نے ہمیشہ قومی اسمبلی کی نشست کو ترجیح دی اور صوبائی نشست کو خالی کیا۔ اب وہ اس صدمے کو نہیں سہہ سکے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment