چارے اور دانے کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ

اقبال اعوان/ خالد زمان تنولی
کراچی میں جانوروں کے چارے اور دانے کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ شہر بھر میں چارے اور دانے کے 2 ہزار سے زائد عارضی اسٹال قائم کئے گئے ہیں، جہاں 22 اقسام کا چارہ دانہ مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔ ’’امت‘‘ سروے کے دوران معلوم ہوا کہ ہرا چارہ، مکئی، جنتر، سوکھی گھاس، چنے کا چھلکا، چوکر، گندم کا دلیہ اور بھوسہ زیادہ فروخت ہوتا ہے۔ قربانی کے سیزن میں پولیس اور ٹریفک پولیس کی بھی چاندی ہو جاتی ہے اور اہلکار سڑک کنارے یا چوراہوں پر لگے اسٹالز سے پیدا گیری کرتے ہیں۔ جبکہ کے ایم سی اور ڈی ایم سی کا عملہ بھی منافع سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ کراچی میں قربانی کے جانوروں کی آمد کا سلسلہ ایک ماہ پہلے ہی شروع ہو گیا تھا اور اب تک شہر میں 12 لاکھ سے زائد بڑے چھوٹے جانور ملک بھر سے لائے جا چکے ہیں۔ اس سال لگ بھگ 18 لاکھ جانوروں کی قربانی متوقع ہے۔ ملیر، بلدیہ اور لانڈھی میں مستقل منڈیاں قائم ہیں، جبکہ بھینس کالونی، لانڈھی، کورنگی صنعتی ایریا، سپرہائی وے پر واقع ناگوری بھینس سمیت شہر بھر کے باڑوں پر 8 لاکھ سے زائد گائے اور بھینسیں موجود ہیں، جن کیلئے چارہ دانہ سال بھر معمول کے ریٹ پر فروخت ہوتا ہے۔ تاہم جب قربانی کیلئے شہر میں لاکھوں جانور لائے جاتے ہیں تو چارے اور دانے کی قیمتیں کئی گنا بڑھا دی جاتی ہیں۔ جوں جوں بقرعید قریب آرہی ہے چارے دانے کی کھپت بڑھنے پر من مانے ریٹ لگائے جانے لگے ہیں۔ حکومتی سطح پر کبھی دانے اور چارے کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے منافع خور تاجر شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ چارے کی طلب میں اضافے کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مضافاتی آبادیوں، گڈاپ، ملیر اور دیگر علاقوں میں ندی نالوں میں اگنے والی گھاس سمیت جامن، پیپل، برگد، بیری، امرود، نیم اور ٹالہی کے درختوں کے پتے تک توڑ کر فروخت کئے جارہے ہیں۔ ڈیفنس، کلفٹن، بہادر آباد، نارتھ ناظم آباد، پی ای سی ایچ ایس اور دیگر پوش علاقوں میں چارے اور دانے کے عارضی اسٹالز پر معمول کی قیمت سے 5 گنا زائد ریٹ وصول کئے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک بڑا جانور دن میں کم از کم 300 روپے کا چارہ دانہ کھاتا ہے۔ شہر میں لگ بھگ 8 لاکھ گائے، بیل لائے جا چکے ہیں، جو یومیہ 24 کروڑ روپے کا چارہ دانہ کھا رہے ہیں۔ بکرے، دنبے روزانہ ڈیڑھ سو روپے کی خوراک کھاتے ہیں۔ شہر میں تین لاکھ بکرے دنبے آچکے ہیں، جو یومیہ ساڑھے 4 کروڑ روپے کا چارہ دانہ کھا رہے ہیں۔ اس طرح شہر میں چارہ فروخت کرنے والے یومیہ ساڑھے 28 کروڑ کا بزنس کر رہے ہیں۔ لانڈھی بھینس کالونی سے متصل بھوسے کی مرکزی منڈی ہے، جبکہ چارے کی بھی مرکزی منڈی بھینس کالونی لانڈھی میں واقع ہے۔ چارے کے بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانور عام طور پر مکئی کا کتر، جوار کا کتر، باجرے کا کتر، گندم کا خشک بھوسہ، سبز مٹری گھاس، سبز جنتر کی گھاس، پھٹی کی سبز گھاس، جوار کی سوکھی گھاس، چھیر کی سبز گھاس، خشک گوار کا بھوسہ، مونگ کا خشک بھوسہ، مسور کا خشک بھوسہ، سبز گاجر کی گھاس، چوکر، نبولہ کھلی، گندم کا دلیہ، چھانی روٹی فیڈ اور دیگر اشیا کھاتے ہیں۔ لانڈھی بھینس کالونی میں واقع بھوسہ منڈی کی ایسوسی ایشن کے نائب صدر آصف بیگ کا کہنا ہے کہ آج کل منڈی میں روزانہ بھوسے کے 250 سے 300 سے زائد ٹرک پنجاب، بلوچستان اور سندھ سے آتے ہیں۔ اس مرکزی منڈی کے علاوہ سپرہائی وے مویشی منڈی، ناگوری بھینس کالونی اور دیگر جگہوں پر بھی بھوسے کے ٹرک آرہے ہیں۔ ایک ٹرک میں 250 سے 3 سو من بھوسہ آتا ہے، آج کل ہول سیل ریٹ 420 روپے سے 430 روپے من ہے۔ اس کے ایک من کے بنڈل بنائے جاتے ہیں اور اسٹال والے آدھا کلو، ایک یا دو کلو تول کر شاپر میں فروخت کرتے ہیں۔ بھینسوں کے باڑے والے پہلے ہی بھوسہ اسٹاک کر لیتے ہیں، جبکہ جانور دوسرے شہروں سے لانے والے تھوڑا بہت بھوسہ ساتھ لے کر بھی آتے ہیں۔ مویشی تاجر ایسوسی ایشن کے صدر جمیل قریشی کا کہنا ہے کہ شہر میں چارے کے 3 سے 4 سو ٹرک روزانہ آتے ہیں۔ ٹھٹھہ، بدین اور سکھر سمیت سندھ کے مختلف شہروں سے لوسن، مکئی، جوار سمیت ہرا اور سوکھا چارہ آتا ہے۔ بلوچستان سے زیادہ تر سوکھی جوار اور سوکھی مکئی آتی ہے جو بڑی تعداد میں مواچھ گوٹھ بلدیہ کی مویشی منڈی میں جاتی ہے۔ ایک گاڑی میں 250 من چارہ ہوتا ہے۔ ہول سیل میں مکئی کا چارہ 10 روپے کلو فروخت ہورہا ہے، جو مویشی منڈی میں 15 روپے، پوش علاقوں میں 30 روپے کلو تک فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس طرح باجرے کا کتر 6 روپے کلو ہول سیل میں فروخت ہو رہا ہے۔ جبکہ ڈیفنس اور پوش علاقوں میں 18 سے 20 روپے کلو تک فروخت ہورہا ہے۔ سبز جنتر کی گھاس 15 روپے ہول سیل، جبکہ عام اسٹالوں پر 45 روپے تک کلو مل رہا ہے۔ سوکھی جوار ہول سیل 22 روپے کلو اور منڈیوں میں 35 جبکہ اسٹالوں پر 50 روپے میں کلو مل رہی ہے۔ چوکر 20 سے 25 روپے ہول سیل اور منڈیوں میں 40 سے 50 روپے کلو مل رہی ہے۔ نبولہ کھلی جو پنجاب اور سندھ سے منگوائی جاتی ہے، 47 کلو کی بوری ہول سیل میں 17 سے 19 سو روپے میں آتی ہے، جبکہ اسٹالوں پر کلو کے شاپر بنا کر مرضی کے ریٹ لئے جارہے ہیں۔ شہر بھر میں بھوسی ٹکڑے جمع کئے جاتے ہیں اس کا ہول سیل ریٹ 18 روپے فی کلو ہے۔ جبکہ منڈیوں میں 30 روپے کلو تک مل رہی ہے۔ چنا اٹھی جوڑیا بازار سے ہول سیل ریٹ پر 47 روپے کلو ملتی ہے، منڈی میں 70 اور اسٹالز پر 85 روپے کلو تک مل رہی ہے۔ جانوروں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ شہر میں فروخت ہونے والے دانے کی کوالٹی ضرور دیکھنے چاہیئے۔ غیر معیاری اور خراب کوالٹی سے جانور بیمار ہو سکتا ہے، جبکہ سبز چارے میں جڑی بوٹیاں بھی آجاتی ہیں۔ گائے اور بھینس کی خوراک میں 3 کلو سوکھے توڑی، ایک کلو کھلی، آدھا کلو چوکر، آدھے کلو چنے کا چھلکا، 15 سے 20 کلو سبز چارہ مکئی، لوسن دینی شامل ہیں، جبکہ انہیں روٹی پانی میں بھگو کر دیں۔ بکرے دنبے کو دو وقت چنے کی دال مکس ڈالیں۔ دلیہ تھوڑی دیر بھگو کر دیں۔ ہرا لوسن آدھا کلو، کھلی دانے چند ٹکڑے دیں۔ اونٹ کے سامنے سارا دن سوکھی گوار اور ہری گھاس رکھیں۔ یہ صبح سے شام تک خود مرضی سے کھاتا ہے۔ اس کو 40 سے 45 لیٹر پانی ایک وقت میں دیں۔
چارہ دانے کے بیوپاری محمد حسین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اسٹال والے پارٹ ٹائم کام کرتے ہیں۔ اس طرح بقرعید سے قبل چند ہزار خرچہ نکال لیتے ہیں۔ بابر کا کہنا ہے کہ منڈیوں سے چارہ دانہ ہول سیل ریٹ پر لے کر آتے ہیں اور آنے جانے کے اخراجات، پیکنگ کے اخراجات، اسٹال کا کرایہ رکھ کر آگے فروخت کرتے ہیں۔ جبکہ اداروں کو بھی کچھ نہ کچھ دینا ہوتا ہے۔ سارے خرچے ملا کر ظاہر ہے کہ اشیا مہنگے داموں ہی فروخت کریں گے۔ مجاہد کا کہنا ہے کہ تین سے چار افراد ایک اسٹال چلاتے ہیں۔ ان کے اسٹال کے ایم سی اور ڈی ایم سی نے لگوائے ہیں۔ جبکہ پولیس، ٹریفک پولیس والے الگ حصہ مانگتے ہیں۔ سڑک پر کمانا اتنا آسان نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں 2 ہزار چارے، دانے کے اسٹال لگائے جا چکے ہیں اور مزید لگ رہے ہیں۔ اسٹال والوں کو علاقے کے حساب سے بھتہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ ڈیفنس اور دیگر پوش علاقوں میں پولیس کی جانب سے یومیہ ایک اسٹال کے 4 سے 5 ہزار روپے وصول کئے جا رہے ہیں اور یہ بھتہ صبح سویرے وصول کرلیا جاتا ہے۔ ٹریفک پولیس 100 روپے، کے ایم سی 100، ڈی ایم سی 100 روپے وصول کررہی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment