امت رپورٹ
جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے کے الزام میں گرفتار انور مجید اور ان کے بیٹے کی اکڑ نہیں گئی۔ اس کا ایک مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایف آئی اے کی ٹیم دونوں ملزم باپ بیٹے کو لینے کے لیے قائد اعظم انٹرنیشنل ایئر پورٹ کراچی پہنچی۔ اس موقع پر موجود ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو جمعرات کی شام اسلام آباد سے کراچی پہنچایا گیا۔ دونوں کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی محمد علی ابڑو پی آئی اے کی پرواز سے کراچی لائے تھے۔ محمد علی ابڑو کے ہمراہ اسلام آباد ایف آئی اے کے دو افسران بھی تھے۔ ذرائع کے مطابق اس کیس کی کراچی میں تفتیش کرنے والے محمد علی ابڑو منگل کی رات ہی اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ اس کے اگلے روز سپریم کورٹ میں سماعت تھی۔ ذرائع کے مطابق جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کیس میں کراچی میں اب تک جو پیش رفت ہو چکی تھی۔ محمد علی ابڑو اس کی تفصیلات لے کر اسلام آباد پہنچے تھے۔ جہاں انہوں نے پیش رفت سے متعلق دستاویزات ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو دیں اور بعد ازاں یہ تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد سے محمد علی ابڑو کے ہمراہ کراچی آنے والے دونوں افسر ایئر پورٹ سے ہی واپس چلے گئے۔ جبکہ ایف آئی اے کراچی سرکل کے چند اہلکاروں کو ایئرپورٹ بھیجا گیا کہ وہ انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو ایف آئی اے کے دفتر لانے کے لیے محمد علی ابڑو کی مدد کر سکیں۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کراچی سرکل کے افسران اپنے ساتھ ہتھکڑی بھی لے کر گئے تھے۔ دونوں باپ بیٹے جیسے ہی ایئرپورٹ سے باہر آئے۔ ایف آئی اے ٹیم کے اہلکاروں میں سے ایک نے عبدالغنی مجید کو ہتھکڑی لگانے کی کوشش کی۔ تاہم عبدالغنی مجید نے یہ کہہ کر کہ ’’ہم کوئی ڈاکو ہیں‘‘ ہتھکڑی جھٹک دی۔ جس کے نتیجے میں ہتھکڑی زمین پر گر گئی۔ قصہ مختصر انور مجید اور عبدالغنی مجید کو بغیر ہتھکڑی لگائے گاڑی میں بٹھا کر ایف آئی اے سی بی سی سرکل کراچی پہنچا دیا گیا۔ دونوں کو رات وہیں گزارنی ہو گی۔
انور مجید کافی عرصے سے لندن میں تھے۔ سپریم کورٹ نے بدھ کے روز انہیں ہر صورت عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا۔ یہ ہدایات اس سے پہلے بھی کئی بار دی جا چکی تھیں۔ انور مجید یہ کہہ کر ٹال مٹول سے کام لیتے رہے کہ وہ زیر علاج ہیں۔ تاہم دو روز قبل وہ غیر متوقع طور پر پاکستان آگئے۔ اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انور مجید ٹریپ ہوئے ہیں۔ انہیں ’’سب اچھا ہے‘‘ کا پیغام دے کر واپس بلایا گیا۔ تاہم جب وہ واپس آئے تو سب اچھا نہیں تھا۔ ذرائع کے بقول انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی کو اپنے گرفتار نہ ہونے کا اس قدر یقین تھا کہ انہوں نے اپنی حفاظتی ضمانت کرانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ دونوں باپ بیٹے سپریم کورٹ جاتے ہوئے کس قدر پُراعتماد تھے؟ اس کا حوالہ دیتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ سپریم کورٹ پیشی پر جاتے ہوئے انور مجید اور ان کے بیٹوں کے ہمراہ چند ایسے اعلیٰ سرکاری ملازم بھی تھے، جن کا شمار پیپلز پارٹی کے ہمدردوں میں ہوتا ہے۔ راستے میں ان ہمدرد سرکاری ملازمین میں سے ایک نے باپ بیٹوں سے کہا کہ جس طرح فریال تالپور نے سیشن کورٹ سے اپنی حفاظتی ضمانت کرا کے اسے ہائی کورٹ سے کنفرم کرایا تھا۔ بہتر ہوتا کہ آپ بھی ایسا ہی کرتے، تاکہ گرفتاری کا رسک نہ ہوتا۔ ذرائع کے مطابق اس پر انور مجید تو خاموش رہے، تاہم عبدالغنی بولے کہ… ’’ہمیں گرفتار نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے‘‘۔ فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہیں گرفتار نہ ہونے کی یقین دہانے کس نے کرائی تھی۔ تاہم بعد میں جو کچھ ہوا، وہ باپ بیٹے کی توقعات کے خلاف تھا۔ سماعت کے اختتام پر ایف آئی اے نے مقدمہ میں نامزد ملزمان انور مجید اور عبدالغنی مجید کو حراست میں لے لیا۔ قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ انہوں نے انور مجید کو گرفتار کرنے کا کہا ہے نہ ہی گرفتاری روکنے کے احکام دیئے ہیں۔ یہ ایف آئی اے کی صوابدید ہے کہ وہ انہیں گرفتار کرے یا نہ کرے۔
ایف آئی اے کے تفتیشی حکام خود بھی اس بات پر حیران ہیں کہ انور مجید اور ان کے بیٹے نے اپنی حفاظتی ضمانتیں کیوں نہیں کرائیں۔ اور یہ کہ ان کے حد درجہ اعتماد کا سبب کیا تھا۔ ایک ایف آئی اے افسر کا یہاں تک کہنا ہے کہ اگر انور مجید خود واپس نہیں آتے تو بذریعہ انٹر پول انہیں لندن سے لانا بہت مشکل عمل تھا۔ کیونکہ بذریعہ انٹر پول دبئی سے کسی ملزم کو پاکستان لانا تو آسان ہے۔ تاہم برطانیہ جیسے ملک سے کسی کو انٹر پول کے ذریعے واپس لے کر آنا ایک دشوار اور طویل پروسس ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں اس اعتماد میں مارے گئے جو مبینہ طور پر کسی کی یقین دہانی کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے انور مجید اور ان کے بیٹے کو گرفتار کرنے کا اصولی فیصلہ کر چکی تھی۔ تفتیش سے وابستہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی محمد علی ابڑو کو سپریم کورٹ کی سماعت سے ایک روز پہلے اسی لیے اسلام آباد بھیج دیا گیا تھا کہ باپ بیٹے کی گرفتاری کے فیصلے کو عملی شکل دی جا سکے۔ کیونکہ اگر اسلام آباد ایف آئی اے کے اہلکار گرفتاری کرتے تو انہیں راہداری ریمانڈ لینا پڑتا اور یوں معاملہ طویل ہو جاتا۔ ذرائع کے بقول جس روز سے سپریم کورٹ نے جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کیس کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ اس دن سے ایف آئی اے نے انور مجید کی گرفتاری کی تیاری شروع کر دی تھی۔ یعنی ان کا پرائم ٹارگٹ انور مجید ہی تھے کیونکہ ایف آئی اے حکام سمجھتے تھے کہ انور مجید کی گرفتاری کے بغیر اس کیس میں تیزی سے پیش رفت ممکن نہیں۔
ادھر اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری، انور مجید سے آج کل خوش نہیں ہیں۔ سابق صدر سمجھتے ہیں کہ انور مجید کی نااہلی سے جعلی اکائونٹس کیس میں ان کا اور فریال تالپور کا نام آیا۔ واضح رہے کہ ایف آئی اے اب تک 30 سے زائد جعلی اکائونٹس کا سراغ لگا چکی ہے۔ جن کے ذریعے 35 ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ ان جعلی اکائونٹس میں سے چند کے ذریعے اربوں کی رقم میں سے صرف 14 کروڑ 65 لاکھ روپے زرداری گروپ نامی کمپنی میں منتقل ہوئے۔ مجموعی رقم کے حساب سے اگر یہ معمولی رقم زرداری گروپ کو منتقل نہیں ہوتی تو آصف زرداری اور فریال تالپور کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں زرداری گروپ میں رقم کی ٹرانزیکشن کو ممکنہ طور پر ویلڈ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے قانونی اور سیاسی دونوں پہلو ہو سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭