سائنسی علوم کا منبع:
ہارت وگ ہرش فیلڈ (Hartwig Hirschfield) کی قرآن کے بارے میں رائے یہ ہے:
ہمیں یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ قرآن حکیم تمام سائنسی علوم کا منبع ہے۔ ہر مسئلہ خواہ اس کا تعلق زمین سے ہو یا آسمان سے، انسانی زندگی سے ہو یا صنعت و تجارت سے، قرآن کے اوراق میں کہیں نہ کہیں اس کا ذکر ضرور ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے مختلف عنوانات پر اب تک بے شمار تحقیقی مضامین لکھے جا چکے ہیں، جو اس متبرک کتاب کے مختلف حصوں کی تفسیر بن چکے ہیں۔ اسی طرح قرآن حکیم کئی مباحث و مناظر کا ذریعہ بھی بنا ہے اور دنیائے اسلام میں سائنسی علوم کی تمام شاخوں میں بے مثال کامیابی اس کی مرہون منت ہے۔ اس حقیقت سے نہ صرف یہ کہ عرب قوم ہی متاثر ہوئی، بلکہ قرآن حکیم نے یہودی فلسفیوں کو بھی یہ ماننے پر مجبور کردیا کہ وہ مذہب اور مابعد الطبیعات جیسے اہم مسائل کو اصول عرب کی روشنی ہی میں مانیں جس طرح طریقہ سے عربوں کے مذہبی فلسفہ نے مسیحی مذہب کی منطق کو تقویت پہنچائی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔
دنیائے اسلام کے جو نہی روحانی جذبات ابھرے تو اس کا اثر صرف دینی تصورات تک ہی محدود نہ تھا بلکہ یونانیوں کے فلسفہ، حساب، علم ہیئت اور طب کی تحریرات نے ان کے دلوں میں ان علوم کے سیکھنے کا جذبہ بیدار کیا۔ جناب محمد مصطفیؐ نے وحی الٰہی کا حوالہ دیتے ہوئے بار بار ہماری توجہ آسمانی حقائق کی طرف مبذول کی ہے، جو کہ قدرت کے کرشمے کا ادنیٰ سا نمونہ ہیں اور یہ سب اعیان سماوی آدمی کی خدمت کے لئے وقف ہیں۔ لہٰذا ان کی عبادت و پرستش کی اجازت نہیں۔ مزید برآں مسلمانوں نے جس خوبی اور کمال سے علم کی تحقیق کی ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی صدیوں تک صرف وہی اس علم ہیئت کے بڑے حامیوں میں سے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے یورپی ہیئت دان عربوں کے شاگردرہے ہیں۔ بعینہ قرآن حکیم نے طب کی تعلیم پر بھی زور دیا ہے اور مظاہر قدرت میں غور کرنے اور مطالعہ کی تلقین کی ہے۔
(نیوریسر چز اِن ٹو دی کمپوزیشن اینڈ ایکسینجیز آف دی قرآن مطبوعہ لندن 1902ء)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭