سچے خوابوں کے سنہرے واقعات

صحیح مسلم میں معدان بن ابو طلحہ سے روایت ہے کہ ایک دن سیدنا عمر فاروقؓ نے جمعہ کا خطبہ دیا۔ اس میں نبی اکرمؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے مرغ نے تین ٹھونگے مارے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ کچھ لوگ مجھے خلیفہ نامزد کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ حق تعالیٰ اپنے دین اور اپنی خلافت کو ضائع نہیں کرے گا اور نہ اس مقصد کو ناکام کرے گا، جس کی تکمیل کے لیے رب تعالیٰ نے اپنا رسولؐ بھیجا۔ اگر مجھے موقع نہ ملا تو خلافت کے بارے میں ایسے اچھے اچھے آدمی باہمی مشورے سے فیصلہ کریں جن سے رسول اقدسؐ اس دنیا سے خوش خوش گئے تھے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس پر وہ افراد اعتراض کریں گے، جن کو اسلام میں داخل کرنے کے لیے میں نے اپنے ہاتھوں سے مارا ہے۔ اگر وہ ایسا کریں تو وہ حق تعالیٰ کے دشمن، نافرمان اور گمراہ ہیں۔ میں اپنے پیچھے کلالہ کے مسئلے سے زیادہ پیچیدہ کوئی مسئلہ نہیں چھوڑوں گا۔ جس قدر میں نے اس مسئلے میں رسول اقدسؐ سے مراجعت کی تھی، کسی دوسرے مسئلے میں نہیں اور آپؐ نے جس قدر اس مسئلے میں مجھ پر سختی کی، دوسرے کسی مسئلے پر ایسی سختی نہیں کی۔ حتیٰ کہ آپؐ نے میرے سینے میں اپنی انگشت مبارک مارتے ہوئے فرمایا: ’’عمر! کیا تجھے سورئہ نساء کی آخری آیات جو موسم گرما میں اتری تھیں، کافی نہیں؟‘‘ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کو اس طرح حل کروں گا کہ اس کے مطابق فیصلہ کرنا، قرآن خواں اور ان پڑھ سب کے لیے آسان ہو جائے گا۔
پھر فرمایا: ’’خدایا! میں حکام کے متعلق تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان لوگوں کے ساتھ انصاف کرنے، دین سکھانے، سنت نبویؐ کو تعلیم دینے اور ان میں مال غنیمت تقسیم کرنے کے لیے بھیجا ہے اور ان کو تاکید کی ہے کہ جس بات کا فیصلہ ان کے لیے مشکل ہو، وہ میری طرف لکھ بھیجیں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اے لوگو! تم دو سبزیاں، پیاز اور لہسن کھاتے ہو، میں ان کو بدبودار سمجھتا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے، جب کسی کے منہ سے ان کی بو آتی تھی تو نبی اکرمؐ اسے مسجد سے نکال کر بقیع کی طرف بھیج دیتے تھے۔ جو شخص پیاز اور لہسن کھانا چاہے، وہ پکا کر کھائے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 567)
سیدنا فاروق اعظمؓ کا یہ خواب سچ ثابت ہوا اور کچھ ہی عرصے بعد ابولؤلؤ مجوسی نے آپؓ کو محراب رسولؐ پر خنجر سے شہید کردیا۔
سیدنا ابوبکرؓ نے خواب بحیرا راہب کو سنایا
سیدنا ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں اور زید بن عمرو بن نفیل کعبے کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں سے امیہ بن ابی صلت کا گزر ہوا۔ اس نے زید بن عمرو سے پوچھا: اے بھلائی کے طالب! صبح کیسی کی؟ انہوں نے جواب دیا کہ خیرو سلامتی سے۔ امیہ کہنے لگا: کیا تم نے خیرو بھلائی کو پالیا؟ جواب دیا نہیں، پھر امیہ بن ابی صلت نے یہ شعر پڑھا:
’’حق تعالی نے جس دین کے حقیقی ہونے کا فیصلہ فرما دیا ہے، اس کے سوا سب ادیان روز قیامت بے فائدہ اور بے کار ہوں گے۔‘‘
پھر وہ کہنے لگا: وہ نبی جس کا لوگوں کو انتظار ہے، ہم میں سے ہوگا یا تم میں سے؟ سیدنا ابوبکرؓ کہتے ہیں: اس سے پہلے مجھے کسی نبی کے انتظار یا بعث کا علم نہیں تھا۔ میں ورقہ بن نوفل کے پاس گیا۔ وہ اکثر آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور غور وفکر میں مشغول رہتے تھے۔ میں نے اپنی بات کہی تو وہ بولے: اے بھتیجے! ہم اہل کتاب اور اہل علم لوگ ہیں۔
میں بتا سکتا ہوں کہ جس نبی کا انتظار ہے، وہ عربوں میں بہترین نسب کا حامل ہوگا۔ میں نے پوچھا: وہ نبی کیا کہے گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ جو بات کہے گا، وحی کے مطابق ہی کہے گا۔
انہوں نے مزید کہا: ہاں! یہ بتادوں کہ وہ ظلم کرے گا نہ اس پر ظلم ہوسکے گا۔ نہ وہ کسی ظالمانہ کارروائی میں شرکت کرے گا۔ پھر جب رسول اکرمؐ کی بعثت ہوئی تو میں نے آپؐ کی تصدیق کی اور آپؐ پر ایمان لے آیا۔
سیدنا ابوبکرؓ نے شام میں اپنے قیام کے دوران ایک خواب دیکھا اور بحیرا راہب کو سنایا۔ بحیرا نے پوچھا: آپ کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں؟ میں نے جواب دیا: سرزمین مکہ سے۔ وہ پوچھنے لگا کہ آپ کا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ جواب دیا: قریش سے۔ اس نے پیشے کا پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: تجارت۔ یہ سن کر بحیرا نے کہا: اگر حق تعالیٰ نے آپ کا خواب سچ کر دکھایا تو آپ کی قوم سے ایک نبی کی بعثت ہوگی جس کی زندگی میں آپ اس کے وزیر اور اس کے وفات کے بعد اس کے خلیفہ ہوں گے۔
آپ نے یہ بات دل میں چھپالی اور اس کا ذکر کبھی کسی سے نہ کیا۔ (سیدنا ابوبکرؓ کی زندگی کے سنہرے واقعات از مولانا عبدلمالک مجاہد، ص: 43,42)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment