مخلوق کے آرام کی فکر!

حضرت نصیر الدین چراغ دہلویؒ کی مجلس میں ایک بار علاؤ الدین خلجی کا ذکر آیا تو حضرت نے فرمایا کہ ملک التجا قاضی حمید الدین جب اودھ آئے تو ایک دعوت میں مجھ کو بھی بلایا، دعوت کے بعد جب تمام لوگ رخصت ہوگئے تو میں تنہا رہ گیا، اثنائے گفتگو میں ملک التجا نے کہا کہ ایک بار میں نے سلطان علاؤ الدین خلجی کو پلنگ پر برہنہ سر اور زمین پر پاؤں لٹکائے ہوئے بیٹھے دیکھا، وہ کسی فکر میں غرق اور مبہوت تھے۔
میں سامنے پہنچا تو اس کو بالکل بے خبر پایا، میں نے باہر آکر کسی شخص سے کہا آج سلطان کو میں نے اس حال میں دیکھا ہے تو بھی چل کر دیکھ، میرے ساتھ وہ بھی اندر گیا تو سلطان کو باتوں میں لگایا، پھر عرض کیا حکم ہو تو کچھ بیان کروں؟ سلطان نے اجازت دی تو میں آگے بڑھا اور کہا کہ آپ کو میں نے کافی مبہوت اور پریشان دیکھا، اس کی کیا وجہ ہے؟
سلطان نے کہا سنو! مجھ کو چند روز سے یہ فکر ہے کہ مجھ کو رب تعالیٰ نے اپنی مخلوق کا حاکم بنایا ہے، اب کچھ کام ایسا کرنا چاہئے کہ جس سے تمام مخلوق کو نفع پہنچے، سوچا کیا کروں، اگر اپنا خزانہ تقسیم کروں تو بھی مخلوق کو زیادہ نفع نہیں ہوگا، اب ایک بات یہ سوچی ہے کہ غلے کی ارزانی کی تدبیر کروں، اس سے مخلوق کو خاطر خواہ فائدہ پہنچے گا، اس ملک کی تدبیر یہ ہے کہ بنجاروں کے نائیکوں کو حکم دوں کہ وہ حاضر ہوں اور وہ جو غلہ اطراف ملک سے ہزاروں بیلوں پر لاتے ہیں، اس کی قیمت اپنے خزانہ سے ادا کروں اور ان کے خانگی خرچ کے لیے علیحدہ سے رقم دوں تاکہ وہ بے فکر رہیں۔
قاضی حمید الدین نے یہ واقعہ بیان کرکے کہا کہ غرض یہی بات عمل میں لائی گئی، شاہی فرمان جاری ہوئے، قیمت اور خرچ شاہی خزانے سے ادا کیے گئے، غلہ بکثرت آنے لگا، چند روز میں گندم، شکر اور دوسری چیزوں کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی اور لوگ آسودہ رہنے لگے۔ (بزم رفتہ کی سچی کہانیاں صفحہ نمبر 100)
حضرت زین العابدینؒ کی تلبیہ پڑھتے وقت کیفیت
حضرت سفیان بن عینیہؒ فرماتے ہیں کہ حضرت زین العابدین علی بن الحسینؒ، نے حج کے ارادے سے احرام باندھا اور سواری پر سوار ہوئے تو آپؒ کا رنگ فق ہو گیا، سانس پھولنے لگی اور بدن پر کپکپی طاری ہو گئی اور لبیک نہیں کہی جا سکی۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپؒ کیوں لبیک نہیں کہتے؟ تو کہا کہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں ’’لا لبیک ولا سعدیک‘‘ نہ کہہ دیا جائے، پھر جب لبیک کہا تو بے ہوش ہو گئے اور سواری سے گر پڑے اور حج پورا ہونے تک یہ بات برابر پیش آتی رہی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment