نواز مرزا داغ کی شاعری کے چرچے ہونے لگے

شعر و سخن کی دنیا میں طلوع ہونے والے تارے کی چمک اور گرمی سے اصحاب شعر کے دل روشن اور گرم ہونے لگے تھے۔ بزرگوں کو اشتیاق تھا کہ دیکھیں یہ کنجشک نو پر کبھی سیمرغ بنتا ہے نہیں، اور جوانوں کو اتفاق تھا کہ اس عمر میں ایسا نابغہ کم دیکھنے آیا ہے۔ نواب مرزا داغ کو جس طرح دوسروں کے اشعار کثرت سے ازبر تھے، اسی طرح وہ زود گوئی میں بھی کمال رکھتا تھا۔ اب قہوہ خانوں میں اس کے دوست ہمجولی بارہا شرط لگا کر شطرنج کھلیتے تھے کہ ہارو گے تو فی البدیہہ غزل کہنی ہوگی۔ پھر نواب مرزا کا کھیل دیکھنے اور اس کے مد مقابل کو عمدہ عمدہ چالیں بتانے کے لئے لوگوں کا ٹھٹھ جمع ہوجاتا۔ فقرے بازیاں ہوتی رہتیں۔ اچھی چالیں بتانے کے شوق میں کئی کئی لوگ ایک ساتھ بول پڑتے اور نواب مرزا کی بازی جو سست ہوتی نظر آرہی تھی، اب تیز ہو جاتی۔ سارا مقصد یہ ہوتا کہ نواب مرزا کو ہرا کر انہیں کوئی ٹیڑھی زمین دے دیں گے اور کہیں گے کہ ابھی لاؤ سات شعر کی غزل۔ نواب مرزا کی شطرنج اچھی تھی، اس لئے مد مقابل کے مشورہ پر واروں کے باوجود اس کو ہرانا آسان نہ ہوتا تھا۔
’’ابے یار حمید تیرا تو گھوڑا گدھا بنا بیٹھا ہوا ہے۔ اسے اٹھا کر فرزیں پیچھے لگا لو میرے بھائی‘‘۔
’’ نہ۔ نہ۔ ایسا نہ کیجو بھائی حمید۔ ان میاں خان کی عقل تو گھاس کھا گئی ہے۔ حمید میاں صاحب، تم تو فرزی والے پیادے کو ان کے رخ پہ بڑھائیوں پھر دیکھیو، اسے کہویں ہیں کھیل‘‘۔
’’ اجی واہ، کیا دوست ہیں کہ دشمن کے بھی کان کاٹے ہیں۔ اے جی بھائی جان، پیادہ آگے جائے تو نواب مرزا کا گھوڑا آزاد ہو جاوے گا‘‘۔
’’ یار تم لوگ تو خچروں سے بھی بڑھ کر گھوڑے گدھے کے پگہے سے بندے وے ہو۔ دیکھتے کہ نواب مرزا پانچ چالوں میں مات دے رے ہیں۔ میاں میری مانو تو اپنے بادشاہ کو واپس قلعے میں لے چلو، ہیاں کا مورچہ مخدوش ہو ریا ہے‘‘۔
اسی طرح باتوں باتوں میں ایک فریق مات کھا جاتا، اور مات کھانے والا نواب مرزا ہوتا تو یاران محفل میں جو شاعر ہوتے ان سے کہا جاتا کہ مصرع طرح تجویز کریں۔ ’’لیکن ردیف ہو ذرا ٹھنکتی وی سی کہ گھوڑے کی طریوں کڑک دوڑتی ہوئی جائے، ذرا ان میاں صاحب کو پتہ تو لگے کہ رامپور سے پوئیاں پوئیاں کیونکر دلی آتے ہیں‘‘۔ اس پر ایک قہقہہ لگتا، جس میں نواب مرزا کی آواز سب سے بلند ہوتی۔ پھر نواب مرزا حاضرین میں سے کسی کو مخاطب کرکے کہتے: ’’ہاں بھئی ان فیل بے زنجیر کو سنبھالنا، بلبلائے پھر رہے ہیں کہیں اپنی صفوں پر نہ چڑھ دوڑیں‘‘۔
اس پر بڑا زوردار قہقہہ اڑا، کہ اکثروں کے ذہن میں ایک مثل بھی کوند گئی جو ایسے ہاتھی کے متعلق تھی جو اپنی ہی فوج پر ہلہ بول دیتا ہے۔
چار پانچ مصرعوں اور فقروں کے رد و بدل کے بعد کہیں مصرع طرح تجویز ہوتا، مثلاً
آتے ہوئے اس گھر میں قضا کو نہیں دیکھا
مصرع پورا ہوتے ہی نواب مرزا نے مصرع لگایا
جنت ہے مگر خانہ دشمن بھی الہیٰ
اور ابھی شور تحسین کی گونج باقی تھی کہ داغ نے دو شعر اور پڑھ دیئے
اتنا تو بتادے مجھے اے ناصح مشفق
دیکھا ہے کہ اس ماہ لقا کو نہیں دیکھا
افسوس کہ فرصت میں کبھی غور سے تم نے
افسانہ ارباب وفا کو نہیں دیکھا
’’نہیں نہیں۔ یہ ان صاحبوں کی ملی بھگت تھی۔ کوئی بھی اس کمال سرعت سے ایسے برجستہ چست بندش والے شعر نہیں کہہ سکتا‘‘۔ ایک صاحب نے فرمایا۔ وہ فخر الشعرا میر نظام الدین ممنون کے شاگرد اور چھوٹے بھائی میر باقی علی المتخلص بہ جعفری تھے اور بھائی کے انتقال کے کئی مہینے بعد اب تک ان کے غم میں سیاہ رومال کمر سے باندھتے تھے۔ ابھی ان کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ داغ نے مقطع پڑھا
جب داغ کو دیکھا کسی بت خانے میں پایا
گھر میں کبھی اس مرد خدا کو نہیں دیکھا
داد کے غل سے قہوہ خانے کی چھت اڑی جارہی تھی، لیکن میر باقر علی جعفری نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، مناسبتیں خوب ہیں، شعر ربگین ہے، پر مطلع تو کہا ہی نہیں‘‘۔
ایک دو حاضرین نے گھور کر دیکھا، مگر میر محمد علی تشنہ، کہ اب ان کی مستی کا زمانہ آغاز تھا، لیکن نگاہ و ذہن چالاک رکھتے تھے، معنی خیز مسکراہٹ مسکرا کر بولے: ’’تو حضور خود ہی ارشاد فرما دیتے، اس کم سن چھوکرے کو کہاں تک مکلف کریں گے‘‘۔
نواب مرزا نے فوراً سمجھ لیا کہ اشارہ میر صاحب کا کس جانب ہے۔ انہوں نے سر و قد کھڑے ہو کر سلام کیا اور کہا۔ ’’اعلیٰ حضرت کو زحمت کیوں دیتے ہیں سرکار، مطلع حاضر کرتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے مطلع پڑھا
گر میرے بت ہوشربا کو نہیں دیکھا
پھر دیکھنے والے نے خدا کو نہیں دیکھا
داد کے ڈونگروں کے درمیان محمد علی تشنہ چپ بیٹھے جھومتے رہے۔ جب شور تھما تو انہوں نے کہا۔ ’’سبحان اللہ میاں صاحب زادے، ایک دن تم ہم سب تشنگان سخن کی سقائی کرو گے۔ بس ایک بات تھی کہ ’’پھر دیکھنے والے‘‘ کی جگہ ’’اس دیکھنے والے‘‘ ہو جاتا تو شعر رنگ و سنگ میں گوہر شاہوار ہو جاتا‘‘۔
نواب مرزا نے آگے بڑھ کر تشنہ کے پاؤں پکڑ لئے اور کہا۔ ’’جائے استاد خالیست‘‘۔
’’میاں ہم کہاں کے استاد اور کہاں کے نقاد۔ تمہیں تو میاں ابراہیم صاحب کے در پر دستک دینی چاہئے‘‘۔
جی بہت بہتر۔ انشاء اللہ وہاں حاضری کی کوئی سبیل جلد نکالوں گا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment