اسپاٹ فکسنگ کے چھوٹے کردار منطقی انجام کو پہنچ گئے

قیصر چوہان
پی ایس ایل میں اسپاٹ فکسنگ میں ملوث چھوٹے کردار منطقی انجام کو پہنچا دیئے گئے۔ تاہم بڑے مگرمچھوں کیخلاف ثبوت جمع کرنے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو ناکامی کا سامنا ہے۔ پاکستانی اوپنر ناصر جمشید اسپاٹ فکسنگ کا مرکزی کردار قرار دیتے ہوئے ان پر دس برس کی پابندی لگادی گئی ہے۔ دوسری جانب پی سی بی کے اینٹی کرپشن ٹریبونل نے وارننگ جاری کی ہے کہ ناصر جمشید سے جو بھی کرکٹر رابطہ رکھے گا، وہ سزا کا مستحق ہوگا۔ ٹریبونل ایک ہفتے قبل کرکٹر شاہ زیب کی بھی سزا بڑھا چکا ہے۔ ادھر پی سی بی نے پاکستان سپر لیگ کو کرپشن فری ایونٹ بنانے کا دعویٰ کر دیا ہے۔
پی سی بی ہیڈ کوارٹر نیشنل کرکٹ اکیڈمی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی اپنی متوقع رخصتی سے قبل پی ایس ایل ٹو میں ہونے والی اسپاٹ فکسنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ لیکن اینٹی کرپشن یونٹ کھلاڑیوں کو اکسانے والے فکسنگ سنڈیکٹ نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ حکام کے پاس اس نیٹ ورک کی پوری معلومات موجود ہیں۔ لیکن اس نیٹ ورک میں بعض نامور سابق کرکٹرز، بورڈ آفیشلز اور طاقتور شخصیات کی موجودگی کے سبب بورڈ فل فلیش کارروائی سے گریزاں ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے قانونی مشیر تفضل حیدر رضوی کا کہنا ہے کہ بکی یوسف کو بک میکر ثابت کرنا پاکستان کرکٹ بورڈ کا کام نہیں۔ یہ کام قانونی اداروں کا ہوتا ہے۔ پی سی بی کا کام اپنے کرکٹرز کو کنٹرول کرنا ہے کہ وہ کسی بھی مشکوک شخص سے رابطہ نہ کریں اور اگر کوئی مشکوک شخص ان سے رابطے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کی فوری اطلاع پاکستان کرکٹ بورڈ کو دیں۔ لیکن ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ بک میکرز کو کھلی آزادی کس قانون کے تحت حاصل ہے۔ کم از کم ملک کی ساکھ خراب کرنے پر یوسف جیسے بکیوں کے خلاف کارروائی کی درخواست ضرور کی جا سکتی ہے۔ کھلاڑی ہمیشہ سے مہرے بن کر سامنے آئے ہیں۔ جہاں کھلاڑیوں کو ٹیم میں شمولیت کا چانس مشکل سے ملتا ہے۔ اسی صورت حال میں فکسنگ میں ملوث طاقتور شخصیات ایسے کھلاڑیوں کو ’’کچھ دو اور لو‘‘ کی پالیسی پر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ہی متاثرہ کھلاڑیوں میں سے ایک ناصر جمشید ہیں، جو مسلسل ٹیم سے نظرانداز کئے جانے کے بعد بنگالی لیگز میں پیسہ کمانے گئے۔ یہاں ان کی ملاقات پاکستانی نژاد برطانوی بک میکر یوسف سے ہوئی، جو انہیں میچ فکسڈ کرنے کے عوض بھاری رقم ادا کرتا رہا۔ ناصر جمشید دیگر پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی شیشے میں اتارنے میں کامیاب رہے۔ تاہم اب تمام کردار بے نقاب ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈکے انسدادِ بدعنوانی ٹریبونل نے اسپاٹ فکسنگ کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کرکٹر ناصر جمشید پر 10 سال کی پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کے بعد وہ کرکٹ کی کسی بھی انتظامی نوعیت کی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ اینٹی کرپشن ٹریبونل نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ناصر جمشید کا نام ان لوگوں کی فہرست میں شامل کیا جائے، جن سے کرکٹرز کو دور رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستانی ٹیم یا کوئی بھی ڈومیسٹک کرکٹر اگر ناصر جمشید سے رابطہ رکھے گا تو اس کے خلاف بھی اینٹی کرپشن کوڈ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ اس سے قبل عدم تعاون کے کیس میں بھی ناصر جمشید کو ایک برس کی سزا سنائی گئی تھی، جس کی مدت رواں برس فروری میں ختم ہوئی۔ جبکہ اسپاٹ فکسنگ کیس کا فیصلہ 6 اگست کو ہونے والی سماعت میں محفوظ کیا گیا تھا۔ انسدادِ بدعنوانی ٹریبونل نے اپنے فیصلے میں ناصر جمشید کو پی سی بی کوڈ آف کنڈکٹ کی 5 شقوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا اور انہیں جرم کا مرکزی کردار دیکر اعلان کیا کہ 10 سال کی سزا کے بعد بھی ناصر جمشید کو کرکٹ بورڈ میں یا کرکٹ انتظامیہ میں کوئی عہدہ نہیں ملے گا۔ فیصلے کے مطابق ناصر جمشید نے میچ فکسنگ کی ہے، جبکہ بکیز کی پیشکش قبول کرتے ہوئے رضامندی کا اظہار کرنے اور کرپشن کی یقین دہانی کروانے کا جرم بھی ان پر ثابت ہوا ہے۔ علاوہ ازیں ان پر کھلاڑیوں کو اکسانے اور بکیز سے رابطے کرانے پر رپورٹ نہ کرنے کا بھی جرم ثابت ہوا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں یہ بھی موقف اختیار کیا تھا کہ ناصر جمشید اس کے مرکزی کردار تھے اور انہی کی وساطت سے خالد لطیف اور شرجیل خان نے بکی یوسف سے دبئی کے ایک چائے خانے میں ملاقات کی، جس میں مبینہ طور پر اسپاٹ فکسنگ کی تفصیلات طے پائی تھیں۔ یاد رہے کہ ناصر جمشید کا نام گزشتہ برس پاکستان سُپر لیگ کے موقع پر اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں سامنے آیا۔ اس اسکینڈل میں ملوث تین کرکٹرز شرجیل خان، خالد لطیف اور شاہ زیب حسن پر پہلے ہی پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں۔ پی سی بی کے قانونی مشیر تفضل حیدر رضوی کا کہنا ہے کہ اس اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ناصر جمشید نے کرکٹ بیٹ کا کوڈ ورڈ درحقیقت کرکٹرز کی خرید و فروخت کیلئے استعمال کیا تھا۔ پاکستان کے قوانین کے تحت ہر شخص کی طرح ناصر جمشید کو بھی اپیل کا حق حاصل ہے۔ دوسری جانب اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ بلے باز شاہ زیب حسن پر کرکٹ کھیلنے کی پابندی کی سزا ایک سال سے بڑھا کر 4 برس کردی گئی ہے۔ جبکہ 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ ادھر پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کو کرپشن فری زون قرار دے دیا ہے۔ چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل تھری کا کامیاب انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ لیگ میں اب کرپٹ کرکٹرز کی کوئی گنجائش نہیں۔ اینٹی کرپشن یونٹ نے بہترین انداز میں کیس کو ہینڈل کیا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment