سید نبیل اختر/ اسامہ عادل
سال بھر چلنے والی کراچی شہر کی سب سے بڑی مویشی منڈی بھینس کالونی میں گزشتہ سال بارشوں سے ہونے والے نقصان کے سبب کئی بیوپاری آنے سے گریزاں ہیں۔ امسال اس منڈی میں اب تک 500 گاڑیوں کے ذریعے صرف 15 ہزار جانور لائے جا سکے ہیں۔ جبکہ پانچ ہزار اسی منڈی کے پلے ہوئے ہیں۔ پچھلی بار یہاں 3 ہزار سے زائد گاڑیوں میں 90 ہزار سے زائد جانور لائے گئے تھے۔ اس منڈی میں موجود بیوپاریوں کے مطابق اجتماعی قربانی کے زیادہ جانور یہیں سے خریدے جاتے ہیں۔ بھینس کالونی منڈی میں خوبصورت اور بھاری جانوروں کی قیمتیں 4 سے 20 لاکھ روپے تک ہیں۔
قربانی کے جانوروں کی فروخت کے حوالے سے ’’امت‘‘ نے بھینس کالونی مویشی منڈی کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں ماضی کے مقابلے میں کم تعداد میں جانور لائے گئے ہیں۔ بیوپاریوں کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس بارشوں کے دوران نکاسی آب کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے گھٹنوں تک پانی جمع تھا، جس کی وجہ سے لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانے والے بیوپاریوں نے اس بار منڈی کا رخ نہیں کیا۔ بیوپاریوں نے شکوہ کیا کہ منڈی کے داخلی راستے پر کے ایم سی اور ڈی ایم سی کا عملہ گزشتہ سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ داخلہ فیس وصول کر رہا ہے۔ جس جانور کے پہلے 60 روپے تھے، اب اسے بڑھاکر ڈھائی سو روپے کر دیا گیا ہے۔ جبکہ بکرے اور دنبے کے 150 روپے مقرر کئے گئے ہیں۔ داخلہ فیس میں اضافے کے برعکس کوئی سہولیات بھی نہیں دی جارہی ہیں۔
بھینس کالونی مویشی منڈی میں موجود شاہد نے بتایا کہ وہ ہر سال بھینس کالونی میں عید قرباں کیلئے جانور لاتا ہے اور اس بار بھی درجن بھر جانور لایا ہے۔ تاہم اس کے پاس موجود نکرا نسل کا بیل باقی تمام جانوروں میں نمایاں ہے، جسے اس نے سفید براق کا نام دیا ہے۔ شاہد کا دعویٰ تھا کہ سفید براق 10 من وزنی ہے اور اس کا قد 5 فٹ اور لمبائی 9 فٹ ہے اور اس دو دانت کے بیل کی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے مقرر کی ہے۔ شاہد کے پاس ہی گینی نسل کا جانور بھی موجود تھا، جس کے متعلق نورانی نامی بیوپاری نے بتایا کہ اس نسل کے جانور کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ قد کاٹھ میں چھوٹا، مگر خوبصورت ہوتا ہے۔ یہ 3 فٹ اونچا اور 5 فٹ لمبا بچھڑا پنجاب کا ہے، تاہم اسے بچپن میں ہی آڑھتی لے آئے تھے اور اس کی پرورش یہیں کی گئی ہے۔ وزن کے متعلق اس کا دعوی ٰتھا کہ یہ 4 من وزنی ہے اور اس کی قیمت ڈھائی لاکھ روپے ہے۔ ساتھ ہی موجود ایک دوسرے جانور کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ 5 من وزنی ہے اور اس کی قیمت اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ایک لاکھ 85 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔
بھینس کالونی کے ایک کیٹل فارم میں 7 فٹ اونچا اور 9 فٹ لمبا آسٹریلین بیل بھی موجود ہے، جس کا نام قد کاٹھ اور جسامت کی وجہ سے سلطان راہی رکھا گیا ہے۔ بیل کے مالک آصف اقبال کا دعویٰ ہے کہ یہ 19 من وزنی جانور ہے اور اس کی قیمت 8 لاکھ روپے ہے۔ وہیں سبی نسل کا ساڑھے 6 فٹ اونچا اور 8 فٹ لمبا بیل بھی موجود ہے، جس کے 10 لاکھ روپے مانگے جارہے تھے۔ جانور کے مالک کا دعویٰ ہے کہ اس کا وزن 12 من ہے اور یہ سبی میں ہی پلا بڑھا ہے۔ وہیں گینی نسل کا ایک بچھڑا بھی نظر آیا، جس کی قیمت ساڑھے 4 لاکھ روپے طلب کی جارہی تھی۔ بیوپاری ناصر نے بتایا کہ یہ باڑے کا پلا ہوا جانور ہے اور اس کا وزن 6 من ہے۔ اس بچھڑے کو دن میں دو وقت ونڈے کے ساتھ سرسوں کا تیل، اٹی اور بیکری آئٹم جن میں بسکٹ اور ڈبل روٹی وغیرہ شامل ہیں، دی جاتی ہے۔ 9 من وزنی ایک دوسرے بیل کو اس کی رنگے کے سبب لالی کا نام دیا گیا ہے اور اس کی قیمت 2 لاکھ 25 ہزار مقرر کی گئی ہے۔ مذکورہ کیٹل فارم میں دیگر جانور بھی موجود تھے، جن کی قیمتیں ان کی خوبصورتی اور وزن کے حساب سے ڈیڑھ لاکھ روپے سے 5 لاکھ روپے تک بتائی گئیں۔ مذکورہ کیٹل فارم میں جانوروں کو پانی پلانی کیلئے بنے تالاب میں مچھلیاں بھی تیرتی دکھائی دیں، جن کے متعلق دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ جانوروں کو صاف پانی فراہم کرنے کیلئے پانی میں مچھلیاں رکھی گئی ہیں۔ آصف اقبال کا کہنا تھا کہ بعض اوقات پانی میں کوئی کیمیکل یا دیگر مضر اشیا شامل ہوجاتی ہیں، جو جانوروں کیلئے نقصان دہ اور بیماری کا سبب بنتی ہیں، جن سے بچاؤ اور جانوروں کو صاف پانی فراہم کرنے کیلئے تالاب میں مچھلیاں ڈالی گئی ہیں۔ کیونکہ مچھلیاں صاف پانی میں زندہ رہتی ہیں اور اگر مچھلیاں تالاب میں مر جائیں تو اس کا مطلب پانی میں کوئی مضر صحت چیز شامل ہوگئی ہے۔ جس پر فوری طور پر تالاب کی صفائی کے بعد پانی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
بھینس کالونی کے ایک کیٹل فارم میں تاج والا بچھڑا بھی موجود ہے۔ اس کے متعلق بیوپاری محمد ارشد نے بتایا کہ یہ ساہیوال نسل کا بچھڑا ہے اور اس کے سر پر قدرتی طور پر تاج ہے۔ اس 6 فٹ اونچے اور 8 فٹ لمبے جانور کا وزن 12 من ہے اور اس کی قیمت 8 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ بیوپاری کے مطابق اسے ونڈے کے ساتھ یومیہ 4 لیٹر دودھ بھی پلایا جاتا ہے۔ بیوپاری محمد یاسین نے ایک بیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ 10 من وزنی ہے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے جسم پر اسم محمد لکھا ہوا ہے۔ یاسین کے مطابق اس بیل کو یومیہ ایک کلو مکھن کے ساتھ دن میں دو وقت 10 کلو گرم روٹی بھی کھلائی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم گزشتہ سال بھی اس بیل کو منڈی میں فروخت کیلئے لائے تھے اور اس وقت ہم نے اس کی قیمت 30 لاکھ روپے مقرر کی تھی۔ ایک خریدار کی طرف سے اس کی 25 لاکھ روپے دیئے جا رہے تھے، تاہم ہم نے اسے فروخت نہیں کیا۔ چونکہ اس بار یہ تھوڑا ڈھل گیا ہے، اس لئے ہم اس کے 20 لاکھ روپے طلب کر رہے ہیں‘‘۔ منڈی میں 5 فٹ اونچی اور 6 فٹ لمبی بچھیا کا تعارف اس کے مالک نے رانی کے نام سے کروایا۔ بیوپاری عدنان کا کہنا تھا کہ وہ اسے یومیہ بنیاد پر گائے کا دودھ پلاتا ہے اور باڑے کی پلی اس بچھیا کا وزن 9 من ہے۔ عدنان نے بتایا کہ اس کا سودا 4 لاکھ روپے میں طے پا گیا ہے۔ ساہیوال نسل کے جانور کے مالک محمد اشرف چیمہ نے بتایا کہ ان کا بیل 8 من وزنی ہے، جسے اس نے خود پالا ہے اور اس کی قیمت 2 لاکھ 20 ہزار ہے۔
میر حسن گزشتہ 2 سال سے نواب شاہ سے عیدالاضحیٰ پر بکرے فروخت کرنے کیلئے بھینس کالونی آرہا ہے۔ اس بار وہ 50 بکرے بھی لایا ہے، جن میں کیلا گلابی نسل کے بکرے بھی شامل ہیں۔ 4 من وزنی بکروں کی جوڑی کے متعلق اس نے بتایا کہ وہ انہیں چارے کے ساتھ یومیہ ڈیڑھ پاؤ گھی اور دو کلو دودھ پلاتا ہے اور اسی حساب سے اس جوڑی کی قیمت 4 لاکھ روپے مقرر کی ہے۔ نواب شاہ سے بھینس کالونی تک گاڑی کا کرایہ 35 ہزار روپے ادا کیا ہے، جبکہ منڈی میں داخلہ فیس فی بکرا 150 کے حساب سے ادائیگی کی گئی ہے۔ دیگر بکروں کے متعلق اس کا کہنا تھا کہ اس کے پاس کاموری اور گلابی نسل کے بکروں کے ساتھ دنبے بھی ہیں، جن کی قیمتیں 30 ہزار روپے سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک ہیں۔
پشین سے آئے نذر گل نے بتایا کہ وہ گزشتہ3 سال سے ہر عید قرباں پر دنبوں لے کر بھینس کالونی کا رخ کر رہا ہے۔ اس سے قبل وہ سہراب گوٹھ جانور لے کر جاتا تھا۔ نذر گل نے بتایا کہ وہ اس بار 100 دنبے فروخت کیلئے لایا ہے، جن میں ترکی نسل کے دنبے بھی شامل ہیں۔ چکتی والے ایک دنبے کے متعلق اس نے بتایا کہ یہ ترکی نسل کا دنبہ ہے۔ دو دانت کے اس دنبے کی قیمت 22 ہزار روپے ہے اور اس کا وزن 30 کلو ہے۔ دیگر دنبوں کے حوالے سے اس کا کہنا تھا کہ وزن اور خوبصورتی کے حساب سے وہ ہر دنبے کے الگ الگ دام طلب کر رہا ہے۔ اس کے پاس 15 ہزار سے 20 ہزار تک قیمت کے دنبے موجود ہیں۔
’’امت‘‘ نے بیوپاریوں کی شکایت پر کے ایم سی کے دفتر کا رخ کیا تو وہاں کوئی موجود نہیں تھا، جبکہ ڈی ایم سی ملیر کے دفتر میں موجود عملہ جانوروں کی آمد و رفت سے متعلق بھی درست معلومات نہیں دے سکا اور ’’امت‘‘ ٹیم کے سوالات سن کر وہاں سے بھاگ گیا۔
٭٭٭٭٭