محمد قاسم
افغان طالبان کا غزنی کے 80 فیصد سے زائد علاقوں پر اب بھی کنٹرول برقرار ہے، جبکہ دارالحکومت کابل جانے والے تمام راستوں پر بھی قبضہ کرلیا گیا ہے۔ جبکہ افغان حکومت اور امریکا نے طالبان سے شہر کا محاصرہ ختم کرانے کیلئے قبائلی سرداروں کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے غزنی کے 9 ریڈیو اسٹیشنز اور 2 ٹیلی ویژن چینلوں کو تا حکم ثانی بند کر دیا ہے۔ محصور افغان فوجیوں کو طالبان کی جانب سے انسانی ہمدردی کے تحت خوراک کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق افغانستان کے وسطی مشرقی صوبہ غزنی کے دارالحکومت غزنی کے اسّی فیصد سے زائد علاقوں پر تاحال طالبان اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ امریکا اور افغان حکومت نے قبائلی عمائدین کے ذریعے افغان طالبان سے غزنی چھوڑنے کیلئے جرگے شروع کر دیئے ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گزشتہ روز (جمعہ کو) افغان طالبان کے مقامی کمانڈروں اور غزنی اور پکتیا کے مشران کے درمیان مذاکرات ہوئے، جس میں مشران نے طالبان سے درخواست کی کہ وہ غزنی کا محاصرہ ختم کر دیں، تاکہ لوگ عیدالاضحی منا سکیں۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے مشران سے دو دن کا وقت مانگا ہے کہ وہ مرکزی شوریٰ سے ہدایات لے سکیں۔ شوریٰ کے حکم پر ہی وہ غزنی کا محاصرہ چھوڑ سکتے ہیں۔ ادھر کابل حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان کی صفوں میں غیر ملکی جہادی بھی شامل ہیں، تاہم طالبان نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ افغان حکومت اپنی شکست کو چھپانے کیلئے بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ کوئی غیر ملکی جہادی نہیں۔ اور جنگ میں شہید ہو جانے والے طالبان کی تدفین افغانستان میں ہی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر پرانی تصاویر جاری کر کے طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ غزنی سے باہر افغان فوج اور امریکا کا قبضہ ہے، ایسے میں لہذا افغان طالبان شہدا کی میتوں کو کیسے پاکستان بجھوا سکتے ہیں۔ افغان حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سیکورٹی فورسز نے افغان طالبان کا محاصرہ توڑ دیا ہے اور غزنی میں حالات معمول کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے۔ طالبان عوام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں، جبکہ امریکی بمباری سے تباہ ہونے والے واٹر سپلائی کے منصوبوں کو بحال کیا جارہا ہے۔ طالبان نے بجلی کی لائنوں کی مرمت کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ ’’امت‘‘ کے اپنے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت افغان طالبان کا غزنی شہر کے اسّی فیصد سے زائد حصے پر کنٹرول ہے، جبکہ افغان طالبان نے شہر میں حکومتی اور نجی سطح پر چلنے والے 9 ریڈیو اسٹیشنز اور 2 ٹیلی ویژن چینلوں کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا ہے۔ افغان طالبان نے ان ریڈیو اسٹیشنز اور ٹی وی چینلز کے مالکان سے کہا ہے کہ وہ طالبان کے دوسرے حکم کا انتظار کریں۔ مالکان پر واضح کر دیا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو ان اداروں سے نہیں نکالا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اتنی قوت و طاقت رکھتے ہیں کہ پورے افغانستان کے ذرائع ابلاغ کو بند کر دیں، لیکن افغان طالبان آزادی اظہار پر یقین رکھتے ہیں، اس کے باوجود کہ میڈیا یک طرفہ طور پر طالبان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان آج (ہفتے کو) یا کل (اتوار) تک ان ریڈیو اور چینلوں کو کھول دیں گے۔ ریڈیو اور ٹی وی چینلز بند کر نے سے افغان طالبان نے امریکا اور افغان حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے دعوے میں کوئی صداقت نہیں ہے اور اب بھی غزنی شہر پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ دوسری جانب شہر میں محصور افغان فوجیوں کو طالبان نے خوراک کی فراہمی شروع کر دی ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اقدام قبائلی مشران اور محصور فوجیوں کے اہلخانہ کی درخواست پر کیا گیا۔ اور یہ کہ اگر افغان فوجی ہتھیار ڈال کر اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں تو طالبان انہیں محفوظ راستہ بھی دیں گے۔ اب تک جن 180سے زائد سیکورٹی اہلکاروں نے ہتھیار ڈالے ہیں، انہیں گھروں کو جانے کیلئے رقوم بھی فراہم کی گئی ہیں۔ افغان فوجیوں کو شکوہ ہے کہ افغان حکومت اور امریکا نے پہلے بمباری کر کے بے گناہ لوگوں کو شہید کیا۔ صرف ایک بار انہیں خوراک فراہم کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ بھی ان چیک پوسٹوں پر گرائی گئی، جن پر طالبان کا قبضہ ہے۔ اگر قبائلی مشران کے طالبان سے مذاکرات نہ ہوتے تو وہ بھوک سے ہلاک ہو جاتے۔ ذرائع نے بتایا کہ افغانستان کے وسطی صوبہ غزنی میں مزید لڑائء سے پورے ملک میں جنگ پھیل سکتی ہے۔ اس لئے جنگ کو روکنے کیلئے بڑے پیمانے پر قبائلی مشران مشرقی افغانستان سے غزنی پہنچ رہے ہیں، جبکہ انہوں نے طالبان کے کمانڈروں سے غزنی کا محاصرہ ختم کرنے یا عیدالاضحی کے تین دنوں تک جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم طالبان نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جنگ بندی نہیں کر سکتے۔ محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ مرکزی شوریٰ کرے گی۔
٭٭٭٭٭