صدر کا انتخاب-نواز لیگ تاحال کوئی نام فائنل نہ کرسکی

وجیہ احمدصدیقی
مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی مکمل ہونے کے بعد صدر پاکستان کے انتخاب کا شیڈول الیکشن کمیشن نے جاری کر دیا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق اب تک مسلم لیگ (ن) نے منصب صدارت کیلئے اپنے امیدوار کا نام فائنل نہیں کیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف نے صدارتی امیدوار کیلئے پانچ ناموں پر غور شروع کر دیا ہے، جن میں عارف علوی، ناصرہ جاوید، ظفراللہ جمالی، میاں محمد سومرو اور معین الدین حیدر شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن متحد ہو گئی تو پی ٹی آئی کیلئے مشکل کھڑی ہو سکتی ہے، لیکن ایسا کوئی اتحاد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ پی پی کی جانب سے میاں محمد سومرو اور معین الدین حیدر کو سپورٹ کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ صدر کے انتخاب کا حلقہ تمام صوبوںکی اسمبلیاں، قومی اسمبلی اور سینیٹ ہوتا ہے۔ اس وقت سینیٹ کے ارکان کی تعداد 104 ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 342 ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 371۔ سندھ اسمبلی کے ارکان کی تعداد 168۔ خیبر پختون اسمبلی کے ارکان کی تعداد 124۔ جبکہ بلوچستان کے ارکان تعداد 65 ہے۔ ان تمام ارکان میں سے 449 کے قریب ووٹ تحریک انصاف کے ہیں۔ اس لیے صدارتی انتخاب میں تحریک انصاف کو کامیابی کے لیے پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے صدراتی انتخابات میں ووٹوں کی تعداد 181 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹوں کی تعداد 285 کے قریب ہے۔ تاہم 4 ستمبر کو جب صدارتی الیکشن کے لیے ووٹنگ ہوگی تو اس وقت تحریک انصاف اور اپوزیشن کی انتخابی قوت تبدیل ہوچکی ہوگی۔ کیونکہ پنجاب اسمبلی میں اسپیکر کے الیکشن کے وقت نواز لیگ کو اس کے نمائندوں کی تعداد سے کم ووٹ ملے۔ چونکہ اسپیکر کا الیکشن خفیہ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور صدارت کا الیکشن بھی خفیہ رائے دہی کی بنیاد ہونا ہے، اس لیے صدارتی الیکشن کے نتائج توقع سے ہٹ کر بھی ہو سکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بظاہر منصب صدارت کے حصول میں بھی تحریک انصاف کو کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئے گی، تاہم اگر اپوزیشن متحد ہو جائے تو تحریک انصاف کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا کوئی اتحاد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ کیونکہ وزیر اعظم کے انتخاب میں بھی پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نہیں دیا، حالانکہ اسپیکر کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے اپنے امیدوار کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جسے نون لیگ نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ جماعت اسلامی نے بھی 2018ء کے الیکشن میں بدترین شکست کے بعد شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس رجحان کو دیکھتے ہوئے شنید ہے کہ ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار کے لیے کوئی مشکل نہیں پیدا ہوگی۔
صدر کے الیکشن کے حوالے سے نواز لیگ کے معتبر ذرائع سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ پارٹی نے ابھی تک صدارت کے امیدوار کیلئے کسی کا نام فائنل نہیں کیا ہے، کیونکہ انہیں علامتی طور پر ہی کسی کو صدارتی امیدوار نامزد کرنا ہوگا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر پاکستان کے حوالے سے ڈاکٹر عارف علوی کا نام سر فہرست ہے۔ ان کے علاوہ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی، سابق وزیر اعظم محمد میاں سومرو اور سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر کے علاوہ علامہ اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصرہ اقبال کے نام بھی زیر غور ہیں۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی اور جنرل (ر) معین الدین حیدر کے صدر پاکستان بننے کے زیادہ امکانات ہیں۔ کیونکہ عمران خان نے اسپیکر کا انتخاب خیبر پختون سے کیا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ جبکہ چیئرمین سینیٹ کا تعلق بلوچستان سے اور ڈپٹی چیئرمین کا تعلق سندھ سے ہے۔ بطور وزیر اعظم عمران خان کا تعلق پنجاب سے ہے تو اس بات کا امکان نظر آتا ہے کہ وہ صدر پاکستان کا انتخاب سندھ سے کریں گے۔
دوسری جانب چونکہ اس وقت نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد عملاً ٹوٹ چکا ہے، اس لیے صدارتی انتخاب میں بھی پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے امیدوار کی ہی حمایت کرے گی۔ ذرائع نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ خیال کہ اگر پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کا نام صدر پاکستان کے طور پر پیش کیا جائے تو آصف علی زرداری مان سکتے ہیں، تو نون لیگ کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب اس نے چیئرمین سینیٹ کے طور پر رضا ربانی کا نام لیا تھا تو اس پر آصف زرداری کا رد عمل شدید تھا۔ انہوں نے نواز لیگ کی اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا تھا اور بلوچستان عوامی پارٹی کے صادق سنجرانی کا ساتھ دیا تھا۔ اب بھی یہی نظر آرہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور خود پیپلز پارٹی بھی جنرل (ر) معین الدین حیدر کے حق میں بات کرے گی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو کراچی سے جو کامیابی ملی ہے، اس کے صلے میں یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ صدر پاکستان کا تعلق کراچی سے ہوگا۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں اپنا حصہ بطور صدر پاکستان مانگے گی۔ لیکن کرپشن کے مقدمات جس تیزی سے سامنے آ رہے ہیں، اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کمپرومائز کرنے کی پوزیشن میں آتی نظر آرہی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) اکیلی اپوزیشن پارٹی بنتی نظر آرہی ہے، کیونکہ پیپلز پارٹی ماضی کے تجربات کی روشنی میں نون لیگ کا ساتھ نہیں دینا چاہتی۔ نواز لیگ کے ساتھ اس وقت صرف اور صرف جمعیت علمائے اسلام (ف) ہے۔ اپوزیشن کی باقی جماعتوں کو بھی نواز لیگ کے ساتھ چلنے میں تحفظات ہیں۔ یہ تحفظات تحریک انصاف کے امیدوار کے لیے ہی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر کے انتخاب کیلئے الیکشن کمیشن صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پولنگ افسر تعینات کرے گا۔ صدر ممنون حسین کی مدت نو ستمبر کو مکمل ہو جائے گی۔ پاکستان کے دستوری نظام میں صدر کا انتظامی کردار اگرچہ محدود ہے، لیکن اس کی موجودگی نظام حکومت کو چلانے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ دستور کے مطابق یہ عہدہ ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ دستور کے آرٹیکل اکتالیس کے مطابق صدر کے عہدے کی میعاد کے خاتمے سے زیادہ سے زیادہ ساٹھ دن پہلے یا کم ازکم تیس دن پہلے نیا صدر منتخب کیا جانا لازم ہے۔ دستور میں یہ بات بھی واضح طور پر لکھ دی گئی ہے کہ اگر اسمبلیاں موجود نہ ہوں تو پھر اسمبلیوں کے انتخابات کے تیس دن کے اندر اندر صدر کا انتخاب عمل میں آئے گا۔ آئین پاکستان 1973ء کا تیسرا باب پاکستان کی وفاق سازی سے متعلق ہے۔ صدر کا عہدہ شق 41 کی ذیلی ایک کی رو سے سربراہ مملکت اور وفاق کے اتحاد کی علامت ہے۔ ذیلی نمبر 2 کے مطابق جو شخص مسلمان نہ ہو، 45 سال سے کم عمر ہو صدر پاکستان نہیں بن سکتا۔ صدر کا الیکشن مدت ختم ہونے سے 60 دن پہلے اور مدت ختم ہونے سے 30 دن کے بعد نہیں ہو سکتا۔ اگر مقررہ وقت میں الیکشن نہیں ہوتا اور قومی اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے تو عام انتخابات کے انعقاد کے 30 دن کے اندر اندرصدارتی الیکشن ہو گا۔صدارتی عہدہ خالی ہونے کے 30 دن کے اندر اندر صدر کا انتخاب ہونا لازمی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں عام انتخابات کرانے کے تیس دن کے عرصہ میں صدر کا انتخاب ضروری ہے۔صدر کے انتخابات پر کسی عدالت یا ادارے میں سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ چیف الیکشن کمشنر صدر پاکستان کے الیکشن کا ذمہ دار ہو گا اور ریٹرننگ افسر ہوگا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment