سچے خوابوں کے سنہرے واقعات

ایک مرتبہ کعب احبارؒ جو پہلے یہودی عالم تھے اور بعد میں مسلمان ہوگئے تھے، سیدنا عمر بن خطابؓ سے پوچھنے لگے: کیا آپ نے خواب میں کچھ دیکھا ہے؟ سیدنا عمرؓ مسکرا دیئے اور اس سوال کا سبب دریافت کیا۔ کعب احبارؒ کہنے لگیِ: ہماری کتابوں میں ذکر ہے کہ اس امت میں ایک ایسا شخص ہوگا جسے خوابوں کے ذریعے امت کے معاملات کے لیے رہنمائی فراہم کی جائے گی۔ (سیدنا عمر فاروقؓ کی زندگی کے سنہرے واقعات از مولانا عبدالمالک مجاہد، ص: 305)
سیدنا ابن عمرؓ فرماتے ہیں: سیدنا عمر فاروقؓ کی زبان سے جب بھی کوئی جملہ نکلتا کہ میرا گمان اس طرح ہے تو وہ گمان سچ ثابت ہو جاتا۔ آپؓ کے دور خلافت کا واقعہ ہے کہ غیر معمولی شکل وشباہت کا آدمی آپؓ کے قریب سے گزرا۔ سیدنا عمرؓ نے اسے دیکھ کر فرمایا: میرے خیال میں یہ شخص دور جاہلیت میں کاہن تھا۔ اسے میرے پاس لاؤ۔ جب اسے سیدنا عمرؓ کے پاس لایا گیا تو آپؓ نے اس سے اپنے خیال کی تصدیق چاہی۔ وہ کہنے لگے: میں نے آج تک ایسا کوئی معاملہ نہیں دیکھا، جو کسی کو پیش آیا ہو (یہ کہہ کر اس نے بات چھپالی، واضح نہیںکی)
سیدنا عمرؓ نے اس سے کہا: مجھے صحیح صحیح بات بتاؤ۔ وہ کہنے لگا: میں زمانہ جاہلیت میں کاہن تھا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: ہمیں کوئی عجیب اور انوکھی بات بتاؤ، جس کی خبر تمہیں تمہارے جن نے دی ہو۔
وہ کہنے لگا: میں ایک دن بازار میں جا رہا تھا کہ میرا مؤکل جن گھبرایا ہوا میرے پاس آیا۔ اس نے کہا: آپ کو خبر ہے کہ جنات ایک انقلاب آنے کے بعد نہایت خوف زدہ اور ناامید ہوگئے ہیں اور اپنا رخت سفر باندھ چکے ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا: یہ سچ کہتا ہے۔ ایک دفعہ میں ان بتوں کے پاس سویا ہوا تھا۔ اچانک ایک شخص آیا، اس نے بتوں کے نام پر وہاں ایک بچھڑا ذبح کیا، پھر ایک چیخنے والے نے زور سے چیخ ماری۔ یہ اس قدر بلند تھی کہ اس سے بلند چیخ میں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ وہ کہنے لگا: ہائے ہم مارے گئے۔ ایک صائب الرائے اور فصیح شخص آگیا ہے جو کلمہ توحید کا اعلان کرتا ہے۔
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں: میں وہاں سے چل دیا۔ تھوڑے عرصے بعد ہم نے سنا کہ ایک نبی کا ظہور ہوا ہے، جو کلمہ توحید کا اعلان کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری، حدیث:3866)
سیدنا عمرؓ کے دور میں ہونے والے معرکہ نہاوند کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس جنگ میں جو مال غنیمت ہاتھ آیا اور اس میں کسریٰ کے انتہائی قیمتی جواہرات سے بھرے دو ٹوکرے بھی شامل تھے۔ یہ ٹوکرے حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے سائب بن اقرعؓ کو دے کر سیدنا عمرؓ کی خدمت میں روانہ کردیئے۔ جب یہ جواہرات سیدنا عمرؓ کی خدمت میں پیش کیے گئے تو انہوں نے فرمایا: انہیں بیت المال میں جمع کرا دو اور فوراً واپس چلے جاؤ۔
سائبؓ نے ایسا ہی کیا اور واپس چل دیئے۔ ان کے جانے کے چند روز بعد سیدنا عمرؓ نے سائب کو واپس بلانے کے لیے ان کے پیچھے ایک آدمی روانہ کیا۔ وہ سائب سے کوفہ میں جا ملا۔ وہ انہیں ساتھ لے کر واپس آیا اور سیدنا عمرؓ کے سامنے پیش کردیا۔ سیدنا عمرؓ نے سائب کو دیکھا تو فرمایا:
سائب! بات یہ ہے کہ تمہارے جانے کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ فرشتے مجھے ٹوکروں کی طرف کھینچ کر لارہے ہیں اور یہ دونوں ٹوکڑے آگ بن کر بھڑک رہے ہیں۔ وہ مجھے ان جواہرات کو فوراً تقسیم نہ کرنے کی پاداش میں آگ سے داغنے کی دھمکی دے رہے تھے۔ یہ ٹوکرے تم لے جاؤ اور مسلمانوں کو دیے جانے والے وظائف میں خرچ کردو۔ اس مقصد کے لیے انہیں کوفہ میں فروخت کردینا۔ (سیدنا عمر فاروقؓ کی زندگی کے سنہرے واقعات، از مولانا عبدلمالک مجاہد، ص:264)
سیدنا ابو موسی اشعریؓ فرماتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں بہت سے راستے دیکھ رہا ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب راستے ختم ہوگئے، صرف ایک راستہ باقی رہ گیا۔ میں اس پر چل پڑا، ایک پہاڑ پر پہنچا۔ اس پہاڑ پر پھسلن تھی۔ اچانک میں نے رسول اقدسؐ کو دیکھا، آپؐ کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ بھی تھے۔ وہ سیدنا عمرؓ کو اشارے سے بلا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: آپ عمرؓ کو لکھ کر پیغام کیوں نہیں بھیج دیتے؟ انہوں نے کہا ’’میں انہیں ان کی موت کی خبر نہیں دے سکتا۔‘‘ (سیرت عمرفاروقؓ ڈاکٹر علی محمد الصلابی:579/2 مطبوعہ دارالسلام)(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment