حضرت علی بن مدینیؒ جلیل القدر محدث اور امام بخاریؒ جیسے محدثین کے استاذ ہیں۔ انہیں علم حدیث میں امام مانا جاتا ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حافظ قرآن تھا۔ میرا یہ معمول تھا کہ میں روزانہ والد صاحب کی قبر پر جاتا اور تلاوت قرآن کریم کر کے انہیں ایصال ثواب کرتا۔
ایک مرتبہ رمضان شریف کا مہینہ تھا، ستائیسویں شب تھی، سحری کھا کر فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حسب معمول میں فجر کے بعد والد صاحب کی قبر پر جا کر تلاوت کرنے لگا تو اچانک برابر والی قبر سے مجھے ہائے ہائے کرنے کی آواز آنے لگی۔ جب پہلی مرتبہ یہ آواز آئی تو میں خوف زدہ ہو گیا۔ میں اِھر اُدھر دیکھنے لگا تو اندھیرے کی وجہ سے مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ جب میں نے آواز کی طرف کان لگائے اور غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ آواز کسی قریب والی قبر سے آ رہی ہے اور ایسا لگا کہ میت کو قبر میں بہت خوفناک عذاب ہو رہا ہے اور اس عذاب کی تکلیف سے میت ہائے ہائے کر رہی ہے۔
بس پھر کیا تھا میں پڑھنا پڑھانا تو بھول گیا اور خوف کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں اسی قبر کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گیا، پھر جوں جوں دن کی روشنی پھیلنے لگی تو آواز بھی مدھم ہونے لگے، پھر اچھی طرح دن نکلنے کے بعد آواز بالکل بند ہو گئی۔ جب لوگوں نے آنا جانا شروع کیا تو ایک آدمی سے میں نے پوچھا کہ یہ قبر کس کی ہے ؟
اس نے ایک ایسے شخص کا نام لیا، جس کو میں بھی جانتا تھا۔ کیونکہ وہ شخص ہمارے محلے کا تھا اور بہت پکا نمازی تھا۔ پانچ وقت کی نماز باجماعت صف اول میں ادا کرتا تھا اور انتہائی کم گو اورنہایت شریف آدمی تھا۔ کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتا تھا۔ جب بھی کسی سے ملتا تو اچھے اخلاق سے ملتا، ورنہ زیادہ تر وہ ذکر وتسبیح میں مشغول رہتا۔ جب میں اس کو پہچان گیا تو مجھ پر یہ بات بہت گراں گزری کہ اتنا نیک آدمی اور اس پر یہ عذاب !!
میں نے سوچا کہ اس کی تحقیق کرنی چاہئے کہ اس نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو یہ عذاب ہو رہا ہے ؟ چنانچہ میں محلے میں گیا اور اس کے ہم عصر لوگوں سے پوچھا کہ فلاں شخص بڑا نیک اور عابد و زاہد آدمی تھا، لیکن میں نے اس کو عذاب کے اندر مبتلا دیکھا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
انہوں نے بتایا کہ ویسے تو وہ بڑا نیک اور عبادت گزار تھا، اس کی اولاد بھی نہیں تھی۔ ہاں اس کا کاروبار بہت وسیع تھا، جب وہ بوڑھا ہو گیا اور اس کے اندر کاروبار کرنے کی طاقت نہ رہی اور کوئی دوسرا اس کے کاروبار کو چلانے والا نہیں تھا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور خود بھی سوچا کہ میں اب ذریعہ معاش کیلئے کیا طریقہ اختیار کروں ؟ اس کے نفس نے اس کو یہ تدبیر سمجھائی کہ تو اپنا سارا کاروبار ختم کر اور جو کچھ پیسے آئیں، اس کو سود پر دے دے۔ اس نے سارا حلال کاروبار ختم کیا اور جو رقم آئی، اس کو سود پر لگا دیا۔
چنانچہ کاروبار سے فارغ ہو گیا تھا، اس لئے ہر وقت مسجد میں رہتا۔ اشراق، چاشت، تہجد اوابین وغیرہ تمام نوافل پڑھتا اور پانچوں نمازیں امام کے پیچھے باجماعت صف اول میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھتا اور رات دن ذکر و تسبیح میں مشغول رہتا۔ ادھر لوگوں سے اسے ہر مہینے سود کی معقول رقم مل جاتی تھی، جس کے ذریعے مہینے بھر کا سارا گزارہ چلاتا۔
علی بن مدینیؒ فرماتے ہیں کہ بس یہ سن کر میں سمجھ گیا کہ اس کو جو شدید عذاب ہو رہا تھا، وہ اسی سود خوری کے گناہ کا وبال تھا۔ حق تعالیٰ مسلمانوں کو حرام کھانے اور حرام پہننے سے بچائے۔ آمین۔ (بے مثال واقعات)