قربانی کے احکام ومسائل

کھانے کی چیز کے علاوہ کسی دوسری چیز کے بدلے میں قربانی کا گوشت دینا یا فروخت کرنا یا قصائی اور ملازم کی اجرت میں دینا جائز نہیں، اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کی مقدار میں پیسے صدقہ کر دے۔ قربانی کا گوشت پکانے کے بعد نوکر کو کھلانا جائز ہے، کیونکہ گوشت پکانے کے بعد قربانی کا حکم ختم ہو جاتا ہے۔
اجتماعی قربانی کا گوشت اندازہ سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے، وزن کرکے (برابر کرکے) تقسیم کرنا ضروری ہے اور کسی حصے میں کمی بیشی ہوگی تو سود ہوجائیگا،اور سود لینا دینا کھانا سب حرام ہے۔
قربانی کے جانور کو ذبح کرنے پر اجرت لینا جائز ہے، البتہ پہلے سے اجرت متعین کرنا ضروری ہے، مثلاً فی جانور کے ذبح کرنے پر اتنی اجرت ہے تو ذبح کرنے کے بعد اتنی اجرت ملے گی۔ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کی اجرت میں قربانی کے جانور کا گوشت اور کھال وغیرہ دینا جائز نہیں، بلکہ الگ سے رقم اس کی اجرت میں دینا ضروری ہے۔
ہر تیز دھار چیز جس سے رگیں کٹ کر خون جاری ہو جائے، اس سے ذبح کرنا جائز ہے، البتہ اس ناخن اور دانت سے ذبح کرنا حرام ہے، جو اپنی جگہ پر لگا ہوا ہو، اگر اکھڑے ہوئے دانت اور ناخن سے ذبح کیا جائے تو گوشت حلال ہو گا، لیکن مکروہ ہے (حبشی اور جنگلی لوگ ناخن اور دانت سے کاٹ کر بھی ذبح کرتے تھے، اس لیے نبی کریمؐ نے اس سے منع فرمایا ہے، نیز یہ کہ دانت ہڈی ہے اور ہڈی سے ذبح کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس سے ذبح کرنے سے جانور ناپاک ہو جائے گا)۔
سونا، چاندی، پیتل اگر تیز دھاردار ہو، ان سے ذبح کرنے سے جانور حلال ہوتا ہے، ایسے ہی پتھر اور ٹھیکری جو باریک ہے اور تیز لکڑی سے ذبح کرنے سے بھی جانور حلال ہوتا ہے۔ بانس اور جو چیز تیز ہو، اس سے بھی ذبح کرنے سے جانور حلال ہوتا ہے۔
ذبح کا مسنون طریقہ: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے سیاہی و سفیدی مائل رنگ کے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی کی، اپنے دست مبارک سے ان کو ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ و اللہ اکبر پڑھا، میں نے دیکھا کہ اس وقت آپؐ اپنا پائوں ان کے پہلو میں رکھے ہوئے تھے اور زبان مبارک سے بسم اللہ واللہ اکبر کہتے جاتے تھے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
ذبح کا مقام حلق اور لبہ کے درمیان ہے اور گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے، نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے بلکہ حلقوم اور مری یعنی سانس کی نالی اور اس کے اطراف کی خون کی رگیں جن کو اوداج کہا جاتا ہے، وہ کاٹے۔ اس طرح نجس خون بھی پورا نکل جاتا ہے اور جانور کو تکلیف بھی کم ہوتی ہے۔ اس طریقے کے خلاف جتنے بھی طریقے ہیں، ان میں خون بھی پورا نہیں نکلتا اور جانور کو بلا ضرورت شدید تکلیف بھی ہوتی ہے۔
قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت تمام شرکاء کے نام پکارنا ضروری نہیں، ہاں ذبح کرنے والا ذبح کرتے وقت تمام شرکاء کی طرف سے ذبح کرنے کا خیال دل میں رکھے اور اگر تمام شرکاء کے نام پکارنے کا مقصد ذبح کرنے والے کے علم میں لانا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
ذبح کرنے کی جگہ ٹھوڑی کے نیچے جو ایک ہڈی باہر نکلی ہوئی ہے، اس کے نیچے اور جہاں سے سینہ شروع ہوتا ہے، اس کے اوپر ہے اور جامع الصغیر میں ہے کہ تمام حلق ذبح کی جگہ ہے، خواہ اوپر خواہ نیچے، خواہ درمیان میں ہو۔ اگر ٹھوڑی کے اوپر ذبح ہو گیا تو ذبح کیا ہوا جانور حرام نہیں ہو گا۔
قربانی کا جانور ذبح کرنے کا مقصد خاص حق تعالیٰ کی رضامندی اور تعظیم ہو اور عبادت کے خیال سے ذبح کرے، گوشت کھانے کے مقصد سے یا لوگوں کو دکھانے کی غرض سے نہ کرے۔
اگر جانور ذبح کرنے والا مسلمان ہے تو جانور کو پکڑنے والا خواہ مشرک ہو یا مسلمان، کچھ حرج نہیں اور پکڑنے والے پر بسم اللہ، اللہ اکبر کہنا واجب نہیں اور پکڑنے والا مشرک اگر بسم اللہ، اللہ اکبر کہے تو کوئی فائدہ نہیں۔ اگر مشرک ذبح میں شریک ہوگا تو جانور حلال نہیں ہو گا، اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہو گا اور قربانی صحیح نہیں ہو گی، اس لیے کہ کسی کافر اور مشرک کو ذبح میں شریک نہ کریں اور کوئی غیر مسلم ذبح کرنے والے (مسلم) کے ہاتھ پر زور نہ دے اور اسے چھری چلانے میں اپنے ہاتھ کا سہارا نہ دے، ضرورت ہو تو صرف جانور کو پکڑے۔
ذبح کرنے والے کا منہ قبلہ کی طرف ہونا سنت ہے، اس کو بلاعذر چھوڑنا مکروہ ہے۔ اگر ذبح کی تیاری میں کوئی عیب پیدا ہو گیا، ٹانگ ٹوٹی یا آنکھ خراب ہو گئی تو کوئی حرج نہیں، اس کی قربانی صحیح ہے۔
ذبح کرنے والا مسلمان یا کتابی ہو۔ ٭ ذبح کے وقت خدا کا نام لیا جائے۔ ٭ شرعی طریقے کے مطابق حلقوم اور سانس کی نالی اور خون کی رگیں کاٹ دی جائیں۔
(نوٹ): یہ اختیاری ذبح کی شرائط ہیں، غیر اختیاری اضطراری ذبح کی شرائط الگ ہیں۔
قربانی کے جانور ذبح ہو جانے کے بعد پھر حصہ کا تغیر و تبدل درست نہیں، اگر کسی نے ایسا کیا تو شرعاً اس کا اعتبار نہیں ہو گا اور ذبح سے پہلے جن لوگوں کی طرف سے نیت کر کے قربانی کی گئی ہے، ان کی طرف سے قربانی ہو گئی، ذبح کے بعد جس کو شریک کیا ہے، اس کی قربانی صحیح نہیں ہو گی۔
(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment