چہار باغ اصفہان کا خوبصورت ترین کاروباری مرکز ہے

قسط نمبر36
معروف ماہر ارضیات شمس الحسن فاروقی مختلف سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) میں چیف جیولوجسٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ افغانستان اور ایران کے تفصیلی ارضیاتی دورے کئے۔ اس کے علاوہ خطے کے معدنی دخائر پر متعدد تحقیقی مقالے بھی تحریر کر چکے ہیں۔ شمس الحسن فاروقی کی کتاب ’’رودادِ ایران‘‘ بلاشبہ تحقیق و مشاہدات پر مبنی ایسی تصنیف ہے جو ارضیات کے طلبہ سمیت ذوق مطالعہ رکھنے والے ہر فرد کو پسند آئے گی۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔

امیر کبیر ہاسٹل پہنچتے تک اور کوئی قابل ذکر واقعہ رونما نہ ہوا۔ کیونکہ اصفہان اسٹیل مل والوں نے مجھے جلد ہی فارغ کردیا تھا اس لئے میرے پاس شام سات بجے تک کافی وقت تھا۔ میں نے چہار باغ بازار میں کسی جگہ جلد پیٹ کی بھوک مٹائی اور پھر چہار باغ روڈ کی سیر کی۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ اصفہان کا سب سے خوبصورت علاقہ اور بہت اچھا شاپنگ سینٹر ہے اور میں نے اسے ایسا ہی پایا۔ میرے حقیر خیال میں پاکستان کے کسی بھی شہر میں ایسا کوئی علاقہ نہیں جو اصفہان کے چہار باغ روڈ کے مقابلے پر پیش کیا جاسکے۔ بنیادی طور پر چہار باغ روڈ چارلین والی ڈبل روڈ ہے جس کے درمیان کی بہت چوڑی پٹی کو بڑے سائز کے سفید ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ جگہ جگہ مقررہ فاصلے پر تھک جانے والے خریداروں یا تفریح کی خاطر چہار باغ آنے والوں کے بیٹھنے کے لئے خوبصورت اور آرام دہ بینچیں (benches) ہیں جہاں بیٹھ کر آپ ہر دو جانب موجود سبز پٹی کے درختوں کی رنگینی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ چہار باغ روڈ کے منظم ٹریفک کا نظارہ کرسکتے ہیں اور سامنے ہر دو طرف کاروباری علاقے میں لوگوں کو اپنی جیبیں خالی کرتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ چہار باغ روڈ پر جگہ جگہ کتابوں، رسالوں اور اخباروں کے اسٹال دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ایران میں بہت بڑی تعداد میں اخبار، میگزین، رسالے اور ڈائجسٹ قسم کی کتابیں شائع ہوتی ہیں اور ان کی طباعت کا معیار بہت بلند ہے۔
اسی چہار باغ کے علاقے میں اصفہان کا قدیم اور مشہور بازار، بازار ہنر یا ہنر مندوں کا بازار ہے۔ یہ قدیم طرز کا اونچا اور چھتا ہوا مارکیٹ ہے۔ یہ کس قسم کا بازار ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے آپ راولپنڈی کے مشہور موتی بازار کی چوڑائی دوگنی کردیجئے۔ اس کی دکانوں کی اونچائی کو تین گنا یا تین منزلہ کردیجئے، نیز اس کی لمبائی کو کوئی ڈھائی گنا بڑھا دیجئے اور پھر اس فراخ شدہ مخروطی بازار پر ایک چھت بھی ڈال دیجیے۔ یہی نہیں بلکہ بازار کے دونوں سروں پر بڑے بڑے مہراب نما لکڑی کے جناتی دروازے بھی لگا دیجیے۔ اب چشم تصور میں جو چیز آپ کے سامنے ہے۔ وہ بازار ہنر سے ملتی جلتی ایک چیز ہے۔ کراچی والے جنہوں نے راولپنڈی کا موتی بازار تاحال نہیں دیکھا ہے یہ تصوراتی ڈرل کراچی صدر کے مشہور بوہری بازار کی کسی پوش گلی پر کرکے بازار ہنر کی خوبصورتی اور وسعت کا ایک دھندلا ساخاکہ اپنے ذہنوں کے پردوں پر بنا سکتے ہیں۔
یہ بات تشنہ رہ گئی کہ بازار ہنر میں ملتا کیا ہے؟ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ ہنر مندوں اور کاریگروں کا بازار ہے جیسا کہ بڑی حد تک راولپنڈی کا موتی بازار بھی ہے۔ یہاں مقامی کاریگروں کی تیار کردہ ہر قسم کی اشیاء دستیاب ہیں۔ مثلاً خواتین، مرد حضرات اور بچوں کے لباس، ہر قسم کے زیورات اور خواتین کی آرائش و زیبائش کا سامان، کھانے پینے کی اشیا، ہر قسم کی گھریلو اشیا، دھات کی پلیٹوں پر کیا گیا نفیس کام نیز دھاتوں کی بنی ہوئی مختلف اشیاء وغیرہ وغیرہ مگر اس سلسلے میں مجھے یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ کیونکہ میرے پاس وقت بہت محدود تھا اور میرے ساتھ کوئی مقامی رہبر بھی نہ تھا، اس لئے میں بازار ہنر کو تفصیل سے نہیں دیکھ سکا۔ اس کے بارے میں میرا مندرجہ بالا بیان ایک سطحی بیان ہے جس میں بازار ہنر کی اہم اور خاص اشیا کے رہ جانے کا امکان بہرحال موجود ہے۔
بازار ہنر کے قریب ہی اصفہان کی وسیع اور بلند چہار دیواری والی جامع مسجد بھی ہے جس کے صدر دروازے پر ایک بڑا سا تالہ پڑا ہوا تھا اور وہ نمازیوں کے لئے بند تھی۔ یہ وہی جامع مسجد تھی جسے 780ھ (1378ئ) میں اصفہان پر امیر تیمور کے حملے کے دوران اس کے بیٹے جہانگیر نے جزوی طور پر تباہ کردیا تھا اور وہاں پناہ لئے ہوئے مسلمانوں کو صرف اس بہانے قتل کردیا تھا کہ وہ وہاں بیٹھ کر اس کی فوج پر حملے کی تیاری کررہے تھے۔ جہانگیر نے مسجد میں موجود تمام پناہ گیروں میں سے صرف تین کو اس بنا پر زندہ چھوڑا تھا کہ وہ تینوں بیک وقت اس مسجد کے امام تھے جو ہر نماز کے وقت باری باری اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کی جماعت کراتے تھے۔ جہانگیر نے ان تینوں حضرات کو اپنے باپ یعنی تیمور کے پاس روانہ کردیا تھا جو اس وقت شہر کے ایک دوسرے حصے میں شہریوں کا قتل عام اور شہریوں کے گھروں کو گروانے اور انہیں آگ لگوانے کے کام کی نگرانی کررہا تھا۔ تیمور نے ان تینوں اماموں سے ایک ہی مسجد میں تین جماعتیں کروانے کا جواز معلوم کیا اور اس عنوان پر ان سے بحث کی اور اپنے نقطہ نظر سے انہیں آگاہ کیا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment