وزیر اعلی پنجاب کا انتخاب مخالفانہ نعروں کی گونج میں ہوا

نجم الحسن عارف
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب مخالفانہ نعروں کی گونج میں ہوا۔ نتیجے کا اعلان ہوتے ہی لیگی ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے، جس سے ایوان میں شور مچ گیا۔ اس دوران ’’قاتل قاتل‘‘ اور ’’ڈاکو ڈاکو‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کے تجربے کی بنیاد پر پنجاب میں احتجاج کی حکمت عملی قدرے تبدیل کرتے ہوئے نومنتخب وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو بھی تقریر کرنے کا موقع دیا، یوں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف بھی لمبی چوڑی تقریر کرنے میں کامیاب رہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نواز کے اڈیالہ جیل میں قید قائد نواز شریف کی ہدایت پر سخت احتجاج کی حکمت عملی بروئے کار لائی گئی اور ایوان میں اپوزیشن لیڈر کی مضبوط اور جامع تقریر بھی عوام تک کامیابی سے پہنچائی گئی۔ اسی بنیاد پر اتوار کے روز پنجاب اسمبلی میں وزیراعلی کا انتخابی مرحلہ شروع ہوا تو مسلم لیگ نواز کے ارکان بشمول خواتین نے جہاں بھرپور احتجاج کیا اور ایک جارحانہ انداز اختیار کیا، وہیں حمزہ شہباز شریف کی طرف سے ایک اچھی تقریر بھی ایوان کی تاریخ کا حصہ بنا دی گئی۔ ان ذرائع کے مطابق حمزہ شہباز شریف ذاتی طور پر بھی محدود احتجاج کی حکمت عملی کے حامی تھے، اس لئے انہوں نے پہلے ہی اپنی تقریر کے نکات تیار کرلئے تھے۔ یاد رہے اس معاملے میں حمزہ شہباز کی اپروچ شروع سے ہی اپنے والد شہباز شریف جیسی ہے۔ چنانچہ نومنتخب وزیراعلیٰ اور اس سے پہلے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے بارے میں کافی دیر تک قاتل قاتل اور ڈاکو ڈاکو کے نعرے لگ چکے تو نواز لیگ نے بالآخر سردار عثمان بزدار کو مختصر تقریر کا موقع بھی دے دیا۔ واضح رہے پرویز الہیٰ نے نومنتخب وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی تقریری صلاحیت میں کمزوری کے پیش نظر انتہائی غیر روایتی انداز میں انہیں مختصراً خطاب کا مشورہ دیا۔ عام طور پر قائد ایوان کو اسپیکر کی طرف سے ایسی ہدایت پارلیمانی روایات کا حصہ نہیں سمجھی جاتی۔ لیکن ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نومنتخب وزیراعلیٰ کی تقریر صلاحیتوں کے محدود تر ہونے اور ان کے بطور وزیراعلیٰ ویژنری نہ ہونے کی وجہ سے اسپیکر نے انہیں مختصر تقریر کا کہہ کر ’’آزمائش‘‘ سے بچایا اور جارحانہ موڈ اختیار کی ہوئی اپوزیشن سے نومنتخب وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور خود کو بھی بچانا چاہتے تھے۔ جنہوں نے اجلاس کے
آغاز سے ہی قاتل قاتل اور ڈاکو ڈاکو کے نعروں سے ایوان کے ماحول کو عملاً اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ حتیٰ کہ بظاہر احتجاج پر مائل اپوزیشن جماعت ایوان کو چلنے سے روکنا چاہتی تھی۔
دوسری جانب اجلاس کے آغاز سے پہلے ہی تقریباً گیارہ بجے تک پنجاب اسمبلی کے ایوان میں تقریباً ساری نشستیں بھر چکی تھیں۔ ایوان تقریباً ساڑھے گیارہ بجے تک کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ حمزہ شہباز شریف بطور خاص مسلم لیگ نواز کے سینئر رکن اسمبلی اور سابق اسپیکر رانا محمد اقبال کی معیت میں بیٹھے، تاکہ کسی موقع پر نوجوان ’’اپوزیشن لیڈر‘‘ کو کسی مشورے کی ضرورت محسوس ہو تو ایک انتہائی تجربہ کار رہنما موجود ہو۔ دوسری جانب سردار عثمان بزدار اپنی پہلے سے متعین نشست پر ہی یعنی پچھلی قطاروں میں براجمان تھے۔ ان کے آس پاس بھی اسی طرح پی ٹی آئی اور ق لیگ کے پرانے اور تجربہ کار ارکان موجود تھے تاکہ نواز لیگ کے احتجاج کرتے ہوئے آگے بڑھنے والے ارکان کو بھی سلیقے سے روک سکیں اور ماحول کو زیادہ خراب نہ ہونے دیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سے قبل حکومتی جماعتوں کے سینئر رہنمائوں نے عثمان بزدار کو مختصر تقریر کیلئے تیاری بھی کرائی تھی۔
دن کے بارہ بجے کے قریب ایوان کے کھچا کھچ بھر جانے کے باوجود اسمبلی روایت کے مطابق ارکان کو متوجہ کرنے کے گھنٹیاں بجانے کا آغاز کر دیا گیا۔ اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی بارہ بج کر دس منٹ پر ایوان میں آئے۔ ایوان میں موجود 354 ارکان پھنس کر بیٹھنے پر مجبور تھے۔ خود سردار عثمان بزدار بھی اسی طرح تنگی کے ساتھ تشریف فرما تھے، جبکہ اس کے باوجود بہت سارے ارکان کو کھڑے رہنا پڑا۔ جنہیں بعد ازاں اسپیکر نے اپنے دائیں بائیں جمع ہونے کیلئے کہہ دیا۔
اسپیکر کی طرف سے انتخابی عمل شروع کرنے کے دوران بھی مسلم لیگ نواز کے ارکان کے احتجاجی نعرے جاری رہے، قاتل قاتل، ووٹ کو عزت دو … شرم کرو حیا کرو … لیڈر کو رہا کرو‘ کے نعرے ایوان میں گونجتے رہے۔ جبکہ اسپیکر بار بار ’’ہائوس ان آرڈر، خاموش، خاموش، بس کرو، بس کرو، میری بات سنو ! احتجاج ہو گیا اب بس کرو‘‘ پکارتے رہے لیکن احتجاج جاری رہا۔
ایک بج کر پانچ منٹ پر قدرے خاموشی ہوئی گویا احتجاج میں کمی کی گئی۔ اور مسلسل تیسرے روز سیاہ پٹیاں باندھے نواز لیگی ارکان نے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کی اجازت دے دی۔ اسی دوران تین آزاد ارکان جگنو محسن، معاویہ اعظم اور احمد علی اولکھ نے بھی پی ٹی آئی کے امیدوار عثمان بزدار کے حق میں ووٹ دے دیا۔ پیپلز پارٹی کے ارکان نے اسمبلی موجود ہونے کے باوجود اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا۔ ایک بج کر 20 منٹ تک ووٹنگ کے بعد گنتی کا عمل بھی مکمل ہو گیا۔ جبکہ نواز لیگ کے ارکان نے پھر نعرے بازی شروع کر دی۔ اور نومنتخب وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان ہوتے ہوئے بھی نعرے بازی جاری رکھی تاہم اسپیکر نے اس شور شرابے میں اعلان کر دیا کہ عثمان بزدار 186 ووٹ لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں جبکہ حمزہ شہباز شریف نے 159 ووٹ حاصل کئے ہیں۔
اس اعلان کے بعد بھی نعرے بازی جاری رہی۔ اسپیکر کے اعلان کے بعد حکومتی ارکان نو منتخب وزیراعلیٰ کو مبارکباد دیتے رہے۔ جبکہ اپوزیشن ارکان قاتل قاتل کے نعرے لگاتے رہے۔ ایک بج کر 25 منٹ پر اسپیکر کی درخواست کے بعد سردار عثمان بزدار قائد ایوان کیلئے مخصوص نشست پر براجمان ہو گئے۔ جبکہ تقریباً پونے دو بجے نومنتخب وزیراعلیٰ کو خطاب کا موقع میسر آیا۔ تقریباً پانچ منٹ کی تقریر کی کے بعد حمزہ شہباز شریف نے بطور قائد حزب اختلاف لمبی چوڑی تقریر کی۔ انہوں نے الیکشن چرانے کے ذکر سے لے کر آئندہ جمہوریت کو چلانے کے حوالے سے تعاون کا بھی عندیہ دیا۔ بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔

Comments (0)
Add Comment