امت رپورٹ
پنجاب کی وزارت اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے سپرد کئے جانے کے پیچھے دو اہم راز چھپے ہیں۔ ان میں سے ایک جہانگیر ترین کے سیاسی مستقبل اور دوسرا جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے متعلق ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں کے بقول عثمان بزدار کو عبوری وزیراعلیٰ کے طور پر لایا گیا ہے۔ اس ڈویلپمنٹ سے آگاہ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے نہ صرف اس بات کی تصدیق کی بلکہ اس منصب کے لئے عثمان بزدار کے انتخاب کی پس پردہ کہانی بھی بیان کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نااہل قرار دے چکی ہے لیکن آج وہ پہلے سے زیادہ عمران خان کے منظور نظر بن چکے ہیں۔ جس طرح انہوں نے حکومت سازی کا نمبر گیم پورا کرنے کے لئے دن رات ایک کئے اس پر خوش، نومنتخب وزیراعظم انہیں انعام سے نوازنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے بقول اگر جہانگیر ترین سیاست کے لئے نااہل نہ ہوتے تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا قرعہ فال ان کے نام نکلنا تھا یا کم از اس وقت موجودہ حکومت کی سب سے بھاری وزارت کا قلمدان ان کے پاس ہوتا۔ لیکن اب اس کے لئے ایک راستہ تجویز کر لیا گیا ہے جس کے تحت جہانگیر ترین کو سیاست میں دوبارہ داخل کرنے اور بعد ازاں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پگ ان کے سر پر رکھنے کا پلان ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے لئے پہلی شرط ان کی نااہلیت کا خاتمہ ہے۔ جہانگیر ترین کے ایک قریبی ساتھی اور پی ٹی آئی کے بعض ذرائع کے مطابق سابق سیکریٹری جنرل کو خود اور پارٹی کے بڑوں کو پورا یقین ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جو ریویو پٹیشن دائر کر رکھی ہے اس کا فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کا یہ اٹل موقف ہے ، اور اپنے قریبی لوگوں سے وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ جس شق 62 ون ایف کے تحت انہیں تاحیات نااہل قرار دیا گیا، اس کا اطلاق ان کے کیس پر نہیں ہوتا اور یہ کہ انہوں نے اپنی آمدن کی مکمل ٹریل اور اثاثوں کی تفصیل عدالت کو فراہم کر دی تھی، لہٰذا ریویو پٹیشن میں لازمی ان کی شنوائی ہو گی اور یوں وہ دوبارہ سیاست کے میدان میں اتریں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا تھا۔ رواں برس جنوری میں انہوں نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کی جو، اب تک زیر التوا ہے۔
جہانگیر ترین کو اپنی نااہلی ختم ہونے کا کس قدر یقین ہے ؟ ذرائع کے مطابق اس کا اندازہ جہانگیر ترین کو پنجاب کا مستقل وزیراعلیٰ بنائے جانے سے متعلق خفیہ پلان سے لگایا جا سکتا ہے۔ سابق سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی کے ایک قریبی ذریعے سے جب اس بارے میں استفسار کیا گیا تو اس نے بظاہر عجب بے پر کی اڑائی۔ اس کا کہنا تھا … ’’جہانگیر ترین کی نااہلی ختم ہوگی، تاہم اس سے پہلے نواز شریف جیل سے باہر آئیں گے‘‘۔ مزید استفسار پر ذریعے کا کہنا تھا کہ وہ جو بات بتا رہا ہے وہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کئے جانے سے قبل پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں میں ڈسکس ہوئی اور اس تک پہنچی۔ ذریعے کے مطابق سردار عثمان بزدار کا شمار جہانگیر ترین کے انتہائی قریبی لوگوں میں ہوتا ہے۔ 2018ء کے الیکشن کے لئے تحریک انصاف کا پارٹی ٹکٹ بھی جہانگیر ترین کے کہنے پر عثمان بزدار کو دیا گیا تھا، جو الیکشن سے کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو چھوڑ کر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شامل ہو گئے تھے۔ بعد ازاں جب یہ محاذ پی ٹی آئی میں ضم ہوا تو ساتھ میں عثمان بزدار بھی تھے۔ ذریعے نے بتایا کہ نااہلی کے خاتمے کے بعد، جس کا پی ٹی آئی قیادت کو پورا یقین ہے، جہانگیر ترین کو پہلے صوبائی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں کامیاب کرایا جائے گا اور پھر وہ عثمان بزدار کی جگہ وزارت اعلیٰ پنجاب مستقل طور پر سنبھال لیں گے۔ ذریعے کے مطابق یہ پلان حکومت سازی مکمل ہونے سے پہلے بنا لیا گیا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے بڑے بڑے نام وزارت اعلیٰ پنجاب کے لئے زور لگا رہے تھے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کو وزیراعلیٰ بنا دیا جاتا تو وہ کبھی بھی عبوری طور پر یہ عہدہ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا کسی ایسے بندے کی تلاش تھی جو جب تک وزیراعلیٰ پنجاب رہے اسے کوئی اور چلاتا رہے اور جب یہ منصب چھوڑنے کا حکم دیا جائے تو تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسٹیپ ڈائون ہو جائے۔ ذریعے کے مطابق اس نوعیت کا ایم پی اے تلاش کرنے کا ہدف بھی جہانگیر ترین کو دیا گیا تھا اور یوں قرعہ فال عثمان بزدار کے نام کھلا۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کردار بھی وہی ہوگا جو دوست محمد کھوسہ کا تھا۔ کھوسہ کو مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے مختصر وقت کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب بنایا تھا تاکہ اس عرصے کے دوران شہباز شریف ایم پی اے منتخب ہو جائیں اور بعد ازاں مستقبل طور پر یہ منصب سنبھال لیں۔ یاد رہے کہ دوست محمد کھوسہ 12 اپریل 2008ء سے 8 جون 2008ء تک وزیراعلیٰ پنجاب رہے تھے۔ بعد ازاں ان کی جگہ شہباز شریف نے لے لی تھی۔ ذریعے کے مطابق عثمان بزدار کا معاملہ بھی دوست محمد کھوسہ کے لئے بنائے جانے والے نون لیگی پلان کا ایکشن ری پلے ہے۔ ماضی میں محض تحصیل ناظم کی ذمہ داری نبھانے والے عثمان بزدار کے ناتواں کاندھوں پر یک دم گیارہ کروڑ آبادی پر مشتمل صوبے کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ ذریعے کے بقول تاہم اس میں فکر مندی کی بات اس لئے نہیں کہ ایک تو ان کا منصب عارضی ہے اور پھر جتنے وقت تک بھی وہ صوبے کے حکمراں رہیں گے، بطور گورنر چوہدری سرور اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کی طرف سے انہیں رہنمائی ملتی رہے گی جبکہ باہر بیٹھے جہانگیر ترین، ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ پنجاب کا رول ادا کریں گے۔
دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ انتخابی مہم کے دوران پی ٹی آئی نے جس زور و شور کے ساتھ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا نعرہ لگایا اور اس بنیاد پر سرائیکی بیلٹ کے ووٹ حاصل کئے، فی الحال اس وعدے پر عمل درآمد کا کوئی امکان نہیں۔ اس بات سے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی قیادت کو آگاہ کر دیا گیا ہے حالانکہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بظاہر اس وعدے پر ہی پی ٹی آئی میں ضم ہوا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت ابتدائی 100 روز کے اندر جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے ٹھوس اقدامات کرے گی۔ تاہم ذرائع کے بقول اب جب 100 روز پلان پر عمل کرنے کا وقت آیا ہے تو جنوبی پنجاب صوبہ محاذ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی ارکان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے بہت سے قانونی و آئینی تقاضے پورا کرنے ہوں گے، جس کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔ ذرائع کے مطابق چونکہ خدشہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے اور سو دن کے اندر اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات اٹھائے جانے کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت پر شدید دبائو آئے گا۔ لہٰذا اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے قربانی کے بکرے کے طور پر ہی سہی عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول پارٹی رہنمائوں اور بالخصوص جنوبی پنجاب صوبہ محاذ سے تعلق رکھنے والے ارکان کے ذریعے ایک پلان کے تحت یہ کہلوایا جا رہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے سے وزیراعلیٰ کا انتخاب محرومیوں کے خاتمے اور صوبے کی طرف اہم پیش رفت ہے تاکہ اس بیانیہ کے ذریعے جنوبی پنجاب صوبے کے حامی ووٹروں کو کچھ عرصے تک خوش رکھا جا سکے اور پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد ماضی کی طرح پس منظر میں چلا جائے۔ اسلام آباد میں موجود بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ بظاہر وہاں کے عوام کے لئے بہت کشش رکھتا ہے۔ اس حوالے سے طویل قانونی و آئینی تقاضے بھی اپنی جگہ موجود ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ فی الحال جس اتھارٹی کی جانب سے حتمی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ابھی اس پر تیار نہیں۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ اگر جنوبی پنجاب صوبہ بنا دیا جاتا ہے تو پھر ملک میں دیگر صوبوں اور بالخصوص کراچی صوبے کی آواز بھی زیادہ شدت کے ساتھ اٹھے گی۔ جہاں ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں میں موجود کئی رہنما اب بھی غدار وطن الطاف حسین سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ویسے ہی صوبوں کو خطرناک حد تک خود مختاری دے دی گئی ہے۔