نواب مرزا شعر گوئی کی ہر کسوٹی پر کھر اتررہا تھا

قسط نمبر: 206
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
ایسی ہی ایک محفل کسی دوست کے یہاں منعقد تھی۔ منشی گھنشیام لال عاصی، شاہ نصیر کے نامی شاگرد، میاں ذوق سے چڑے ہوئے، بعض لوگ انہیں درجہ استادی ہی پر فائز قرار دیتے تھے، وہ بھی موجود تھے۔ مشکل زمینوں میں طاق، مضمون آفرینی میں شہرہ آفاق، صاحب علم و فضل، خوش نویسی، پیراکی، موسیقی، یہ سب ان کی نس نس میں بھرا ہوا تھا۔ تمام عمر دلی سے باہر نہ گئے اور خود کو بجا طور پر دہلی کی تہذیب کا امین سمجھتے رہے۔ انہیں نواب مرزا کی زود گوئی کے قصے سن سن کر اشتیاق تھا کہ ذرا ہم بھی تو دیکھیں۔ ذوق سے ان کی بنتی نہ تھی، اور غالباً اسی وجہ سے بادشاہ سلامت سے بھی خفا رہتے تھے کہ شاہ نصیر مرحوم کی ’’تیلیاں‘‘ والی غزلوں کے معرکوں میں قدرتی پر عاصی نے شاہ نصیر صاحب کا ساتھ دیا تھا اور حریفوں کے ناطقے بند کر دیئے تھے، لیکن حضرت ابو ظفر سراج الدین نے بھی قدرتی ہی طور پر اپنے استاد ذوق کا ساتھ دیا تھا۔ بلکہ ایک روایت تو یہ بھی تھی کہ حضرت والا نے (وہ زمانہ بہادر شاہ ظفر کی ولی عہدی کا تھا) کسی مولوی رشید الدین کو لکھا کہ ’’ہندو کافی کی تعریف نہ کرنا‘‘۔ وہ خط مشاعرے میں پیش ہوا اور سب شعرا نے اس کو تعصب قرار دے کر ایماناً کہا کہ عاصی کی غزل لاجواب ہے اور ذوق کی غزل پر فوقیت رکھتی ہے۔ ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ مرحوم کی طبیعت میں صلح کل اور اپنی رعایات کے تئیں بے لوث اور بے لاگ محبت کا ژجو مادہ وافر تھا، اس کو پیش نظر رکھیں تو یہ روایت بالکل وضعی معلوم ہوتی ہے۔ ولی عہد بہادر دل سے متمنی ضرور رہے ہوں گے کہ ان کے استاد کی فتح ہو، لیکن وہ اتنے احمق اور تنگ نظر بھی نہ تھے کہ کسی مجہول سے مصاحب سے ایسی بات کہیں، اور وہ بھی لکھ کر۔ بہرحال، عاصی کے دل میں ابو ظفر بہادر کے خلاف ایک گرہ پڑ ہی گئی تھی اور اسی لئے استاد ذوق سے بھی وہ صاف نہ تھے۔ انہوں نے شاید میر محمد علی تشنہ کی بات کے بارے میں سن لیا تھا کہ نواب مرزا کو تو ذوق کا شاگرد ہونا چاہیے تھا۔ چنانچہ غالباً ان کے اشارے پر ایک صاحب نے داغ سے کہا:
’’میاں صاحب زادے، ہم ذرا مشتاق ہیں، چرچے بدیہہ گوئی کے آپ کی بہت سنے ہیں‘‘۔
’’جی، میں حاضر ہوں، فرمائیں۔‘‘
’’لیجئے، میاں جرات کے مصرعے پر کچھ شعر سنایئے، لیکن التزام وہی ہو جو استاد نے رکھا ہے سنئے، ان کا مطلع ہے
آواز کے تصدق اور گفتگو کے صدقے
اس ناز کے تصدق اور گفتگو کے صدقے
لہذا آپ بھی یوں ہی کہیں۔‘‘
منشی گھنشیام لال عاصی کے چہرے پر ناگواری کے ہلکے سے آثار پیدا ہوئے، گویا امتحانی مصرع انہیں پسند نہ آیا ہو۔ لیکن انہوں نے کچھ کہا نہیں، نواب مرزا نے البتہ جواب دیا: ’’حضرت شعر تو میں اس زمین و بحر میں ابھی کہہ دوں، لیکن یہ کچھ مشکل امتحان نہ ہوا۔ یہاں تو ایک مصرع اور ایک لفظ ہی کہنا ہے، یہ تو آسان سی بات ہے، مثلاً شیخ جرات صاحب ہی کا یہ مطلع ملاحظہ ہو‘‘۔ یہ کہہ کر نواب مرزا نے شعر پڑھا
ہنستے آنا ترا قیامت ہے
مسکرانا ترا قیامت ہے
پھر ہنس کر نواب مرزا نے کہا، ’’ صاحب، آپ ملاحظہ کرتے ہو؟ ہر بار ایک لفظ ڈھونڈ لیجئے اور مصرع تیار، سنئے
دمساز کے تصدق اور گفتگو کے صدقے
ہمراز کے تصدق اور گفتگو کے صدقے
جس ساز میں ہو سوزش جس بات میں ہو شورش
اس ساز کے تصدق اور گفتگو کے صدقے‘‘
پھر ایک لمحے سے بھی کم توقف کرکے نواب مرزا نے اور بھی ہنس کر کہا ’’لیجئے اور سنئے
رات آنا ترا قیامت ہے
آکے جانا ترا قیامت ہے
غرہ عید سا بس ایک لمحہ
ایسا آنا ترا قیامت ہے‘‘
فرمائش کنندہ منہ پھاڑے ہوئے اس آمد آمد بہار سخن کو تک رہے تھے لیکن گھنشیام لال عاصی کے چہرے پر خفیف سا تبسم تھا۔ انہوں نے کہا: ’’میاں نواب مرزا، بات تو آپ نے بے شک درست کہی۔ غزل میں ایسے شعر کہنا آسان ہے۔ معلوم ہوا آپ کا ذوق سلیم اور فن شعر پر طبیعت آپ کی حاوی ہے۔ لیکن رباعی، وہ چیزے دیگر است…‘‘
’’ جی ہاں، کیونکہ وہاں دو نہیں بلکہ چار مصرعے مربوط کرنے ہوتے ہیں۔‘‘
’’ بہت خوب، بہت درست‘‘۔
نواب مرزا کے چہرے پر ایک ذرا چالاک سی مسکراہٹ آئی۔ حسن اتفاق سے اس نے کل ہی کمال اسمعیل کی ایسی ہی ایک رباعی کے تتبع 2.2میں ایک رباعی کہی تھی۔
’’تو حضور، ارشاد ہو تو رباعی عرض کیجئے‘‘۔
’’ کیا ابھی، فی البدیہہ؟‘‘
’’حضرت جو بھی سمجھ لیں، میں ابھی پیش کر سکتا ہوں‘‘۔ نواب مرزا نے گول مول سا جواب دیا۔
’’تو کیوں نہیں،‘‘ عاصی نے کہا۔ ابھی سنوا دیجئے۔ سب مشتاق ہیں۔‘‘
’’ بہت بہتر، میں تو حکم کا بندہ ہوں۔ عرض کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر نواب مرزا نے نہایت درجہ روانی کے ساتھ رباعی پڑھی، کسی کو محسوس بھی نہ ہوا کہ پہلے کی کہی ہوئی ہے
سمجھا ہی نہیں کوئی کہ دنیا کیا ہے
کہتا ہی نہیں کوئی کہ دنیا کیا ہے
گھنشیام لال عاصی اپنی جگہ پر اچھل پڑے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر پکارے، ’’ ہائے ظالم کیا مصرعے بہم پہنچائے۔ دیکھو اب تیسرا مصرع کیا لگتا ہے۔ صاحب، پڑھئے۔ پڑھے جایئے‘‘۔
نواب مرزا نے نیم قد اٹھ کر سلام کیا اور رباعی دوبارہ شروع کی
سمجھا ہی نہیں کوئی کہ دنیا کیا ہے
کہنا ہی نہیں کوئی کہ دنیا کیا ہے
’’ جی، اور تیسرا مصرع حاضر کرتا ہوں
افلاک پہلیاں بجھاتے ہی رہے‘‘
ابھی نواب مرزاکی آواز گونج ہی رہی تھی کہ سامعین میں سے ایک صاحب نے نیم قد اٹھ کر نعرہ کیا:
’’ اے واللہ۔ بوجھا ہی نہیں کوئی کہ دنیا کیا ہے! سبحان اللہ۔ جی چاہتا ہے منہ چوم لیجئے۔ میاں داغ، اللہ آپ کو اور بھی چمکائے۔‘‘ یہ صاحب بھی شاہ نصیر کے شاگرد تھے، نواب حاتم خان کے پوتے تھے، فدا تخلص اور میرزا فدا حسین نام تھا۔
داغ کے چہرے کی بے حد ملاحت اور نرماہٹ کے پیش نظر ’’ جی چاہتا ہے منہ چوم لیجئے‘‘ والے فقرے نے کئی لوگوں کو مسکرانے پر مجبور کر دیا، لیکن داد دینے میں سب برابر کے شریک تھے۔ داغ نے پوری رباعی ’’واہ واہ، سبحان اللہ، درست نہایت درست‘‘ کے ڈونگروں میں نہاتے ہوئے پھر پڑھی
سمجھا ہی نہیں کوئی کہ دنیا کیا ہے
کہتا ہی نہیں کوئی کہ دنیا کیا ہے
افلاک پہیلیاں بجھاتے ہی رہے
بوجھا ہی نہیں کوئی کہ دنیا کیا ہے
جب داد کا شور تھما تو گھنشیام لال عاصی نے بڑھ کر نواب مرزا کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: ’’واللہ آج اگر ہمارے شاہ صاحب اعلیٰ اللہ مقامہم تشریف فرما ہوتے تو میں آپ کو ان کے پاس لے چلتا۔ یہ جوہر نایاب انہیں کے گنج شائگاں کی رونق کے شایان تھا۔‘‘ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment