سیدنا عمرؓ کے بارے میں عجیب خواب:
حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ فرماتے ہیں: سیدنا ابو بکر صدیقؓ کا دور خلافت تھا۔ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک رسی لٹک رہی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے بلند ہو کر اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سیدنا عمرؓ ان لوگوں سے تین ہاتھ زیادہ بلند ہیں۔ میں نے پوچھا: ایسا کیوں ہے؟ اس نے کہا: اس لیے کہ سیدنا عمرؓ زمین میں خدات عالیٰ کے خلیفہ ہیں۔ وہ خدا کے بارے میں کسی ملامت گر کی پروا نہیںکرتے۔ وہ شہادت کی موت پائیں گے۔
عوفؓ فرماتے ہیں: صبح کو میں سیدنا ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے انہیں سارا خواب سنایا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: اے لڑکے! ابو حفصؓ (عمرؓ) کے پاس جاؤ اور انہیں میرے پاس لے آؤ۔ سیدنا عمرؓ وہاں آگئے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: عوف! اپنا خواب بیان کرو۔ جب میں بیان کرتے کرتے ان الفاظ پر پہنچا کہ وہ زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا: بھلا سویا ہوا آدمی یہ سب کچھ دیکھ سکتا ہیِ؟ عوفؓ فرماتے ہیں: پھر باقی خواب سیدنا ابوبکرؓ نے عمرؓ کو سنایا۔
جب سیدنا عمرؓ جابیہ تشریف لائے اور خطبہ ارشاد فرمایا تو مجھے بلایا اور اپنے ساتھ بٹھایا۔ خطبہ سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اب مجھے اپنا خواب سناؤ۔ میں نے عرض کیا: آپ نے اسے بیان کرنے سے روک دیا تھا؟ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اس وقت میں نے تمہیں ٹال دیا تھا۔
ایک روایت میں اس طرح ہے کہ سیدنا عوفؓ نے کہا: آپ نے اس خواب کو غلط قرار نہیں دیا تھا؟ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: نہیں، مجھے تو صرف ابوبکرؓ سے حیا آگئی تھی، لہٰذا اب وہ خواب سناؤ۔
سیدنا عوفؓ فرماتے ہیں: جب میں نے اپنا خواب سنا دیا تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا: تم دیکھ ہی رہے ہو کہ خلافت تو مجھے مل گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں رب تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت گر کی پروا نہیں کرتا تو مجھے امید ہے کہ لوگوں کا میرے بارے میں یہی گمان ہوگا۔ شہادت کے بارے میں سوچتا ہوں کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ میں تو جزیرئہ عرب میں رہتا ہوں۔ (جہاں کوئی جہاد نہیں ہورہا، ہر طرف اسلام پھیل چکا ہے، اس لئے اس تمنا کا پورا ہونا بظاہر ناممکن ہے۔ مگر پھر بھی سیدنا عمرؓ یہ دعا فرماتے تھے کہ الٰہی! مجھے اپنے رسولؐ کے شہر میں شہادت عطا فرما۔ بالآخر تمنا اور دعا بھی پوری ہوگئی) (سیرت عمر فاروقؓ، از ڈاکٹر علی محمد صلابی: 578,577/2)
سیدنا معاذ جبلؓ کا خواب:
سیدنا معاذ بن جبلؓ مشہور صحابی ہیں۔ انہیں رسول اقدسؐ نے یمن کے ایک علاقے کا حاکم بنا کر بھیجا تھا۔ آپؐ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا:
’’حلال و حرام کے جاننے کے سب سے زیادہ عالم معاذ بن جبلؓ ہیں۔‘‘ (صحیح ابن حبان:7131)
نبی کریمؐ کی وفات پر یہ واپس آئے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے سیدنا ابوبکرؓ سے کہا: ان سے وہ پیسہ واپس لے لینا چاہیے، جو نبی اکرمؐ نے انہیں بیت المال سے دیا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا: میں تو اس سے وہ روپے نہیں
مانگوں گا، ہاں! وہ خود واپس کردیں تو ٹھیک ہے۔ یہ بات انہی کی مرضی پر موقوف ہے، کیونکہ مال ان کو رسول اقدسؐ نے دیا تھا۔ پھر سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا معاذؓ کو علیحدگی میں کہا: وہ رقم واپس کردیجیے۔ سیدنا معاذؓ نے کہا: وہ رقم تو مجھے رسول اقدسؐ نے میری مالی حالت سدھارنے کے لیے عطا فرمائی تھی۔ بھلا میں کیوں واپس کروں؟
بعد ازاں سیدنا معاذؓ سیدنا عمرؓ سے ملے اور عرض کرنے لگے: میں آپ کی بات ماننے کے لیے تیار ہوں، کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں پانی کے گھڑے میں ہوں اور ڈوبنے لگا ہوں، مگر آپ نے مجھے وہاں سے نکال لیا ہے۔ اس کے بعد وہ سیدنا ابو بکرؓ کے پاس گئے۔ سارا ماجرا سنایا اور حلفیہ کہا کہ میں کوئی رقم چھپانی نہیں چاہتا۔ ابو بکرؓ نے کہا: میں تم سے کچھ بھی واپس نہیں لوں گا، بلکہ میں یہ تمام رقم تم کو ہبہ کرتا ہوں۔ (نقوش رسولؐ نمبر:201,200/8)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭