معارف و مسائل
دوسری بات یہ بھی سب کے نزدیک مسلم ہے کہ سورئہ نجم کی ابتدائی آیات میں کم از کم آیت وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً… سے لَقَدْ رَاٰہُ مِنْ اٰیٰتِ… تک سب آیتیں واقعہ معراج کے متعلق ہیں۔ امور مذکورہ کے پیش نظر استاذ محترم حجۃ الاسلام حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہ نے سورئہ نجم کی ابتدائی آیات کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے کہ:
قرآن کریم نے اپنے عام اسلوب کے مطابق سورئہ نجم کی ابتدائی آیتوں میں دو واقعات کا ذکر فرمایا ہے کہ واقعہ جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں اس وقت دیکھنے کا ہے، جب کہ آپؐ فترت وحی کے زمانے میں مکہ مکرمہ میں کسی جگہ جا رہے تھے اور یہ واقعہ اسراء و معراج سے پہلے کا ہے۔
دوسرا واقعہ شب معراج کا ہے جس میں جبرئیل امینؑ کو ان کی اصلی صورت میں دوبارہ دیکھنے سے کہیں زیادہ دوسرے عجائب اور حق تعالیٰ کی آیات کبریٰ کا دیکھنا مذکور ہے، ان آیات کبریٰ میں خود حق تعالیٰ سبحانہ کی زیارت و رئویت کا شامل ہونا بھی متحمل ہے۔
سورئہ نجم کی ابتدائی آیات کا اصل مضمون رسول اقدسؐ کی رسالت اور آپؐ کی وحی میں شبہات نکالنے والوں کا جواب ہے کہ ستاروں کی قسم کھا کر حق تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ رسول کریمؐ جو کچھ ارشادات امت کو دیتے ہیں، نہ ان میں کسی غیر اختیاری غلطی کا امکان ہے، نہ اختیاری غلطی کا اور یہ آپؐ جو کچھ فرماتے ہیں، اپنی کسی نفسانی غرض سے نہیں کہتے، بلکہ وہ سب حق تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی وحی ہوتی ہے، پھر چونکہ یہ وحی حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے واسطے سے بھیجی جاتی ہے، وہ بحیثیت معلم و مبلغ وحی پہنچاتے ہیں، اس لئے جبرئیل امینؑ کی مخصوص صفات اور عظمت شان کا بیان کئی آیتوں میں ذکر فرمایا، اس میں زیادہ تفصیل کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ مشرکین مکہ اسرافیل، میکائیل فرشتوں سے تو واقف تھے، جبرئیل سے واقف نہ تھے، بہرحال جبرئیل کی صفات بیان کرنے کے بعد پھر اصل مضمون وحی کو بیان فرمایا فَاَوْحیٰ… یہاں تک یہ سب گیارہ آیتیں ہیں، جن میں وحی و رسالت کی توثیق کے ضمن میں جبرئیل امین کی صفات کا ذکر ہے اور غور کیا جائے تو یہ سب صفات جبرئیل امین پر بے تکلف صادق آتی ہیں، ان کو اگر حق تعالیٰ کی صفت قرار دیا جائے جیسا کہ بعض مفسرین نے کیا ہے تو تکلف و تاویل سے خالی نہیں، مثلاً شَدِیْدُ الْقُویٰ… الخ… ان کلمات کو تاویل کے ساتھ تو حق تعالیٰ کے لئے کہا جا سکتا ہے، مگر بے تاویل و بے تکلف اس کا مصداق جبرئیل امین ہی ہو سکتے ہیں، اس لئے ان ابتدائی آیات میں جس رئویت اور قرب و اتصال کا ذکر ہے، وہ سب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی رئویت سے متعلق قرار دینا ہی اقرب و اسلم معلوم ہوتا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭