قربانی کے احکام و مسائل

مستحب یہ ہے کہ جانور کو سیدھی کروٹ پر قبلہ رخ لٹا کر اس کے اوپر اپنا پائوں رکھ کر ذبح کرے۔ جانور کو قبلہ رخ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح میت کو قبر میں لٹاتے ہیں کہ سر داہنی طرف اور پائوں بائیں طرف اسی طرح جانور کو سیدھی کروٹ پر قبلہ رخ لٹایا جائے، اگر اس طرح لٹانے میں کوئی عذر یا دشواری ہے تو جیسے آسانی ہو، ویسا کرلیں۔
قربانی کی نیت سے جانور خریدا، عین ذبح کے وقت قربانی کرنے والے کو قربانی کرنے کی نیت کرنے کا خیال نہ رہا تو قربانی ہو جائے گی، دوسری قربانی کی ضرورت نہیں ہو گی۔
ذبح کرتے وقت جانور کو غیر ضروری تکلیف دینا جائز نہیں ہے۔ اس پر سخت وعید آئی ہے۔ چنانچہ ذبح کرنے کے بارے میں ہدایت دی کہ چھری کو تیز کرلیا جائے اور جلدی سے ذبح کردیا جائے، جب چار رگیں کٹ جائیں تو پھر آگے تک چھری چلانا بھی منع ہے تاکہ جانور کو بلاوجہ تکلیف نہ ہو۔
اگر باپ کی وفات ہو چکی ہے اور اولاد ایک ساتھ رہ کر کاروبار کرتی ہے تو اگر ان کے مشترک مال یا جائیداد کو تقسیم کرنے کے بعد ہر ایک صاحب نصاب ہو جاتا ہے تو ہر ایک بالغ اولاد کو اپنے اپنے نام سے قربانی کرنا ضروری ہے، اگر کسی ایک بھائی کی طرف سے قربانی کی باقی بھائیوں کی طرف سے نہیں کی تو بقیہ بھائیوں کے ذمہ قربانی کا وجوب باقی رہ جائے گا اور جو اولاد نابالغ ہے ان پر قربانی واجب نہیں ہو گی۔
اگر کاشتکار کے پاس ہل چلانے اور دوسری ضرورت کے علاوہ اتنے جانور موجود ہیں کہ ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو اس کی وجہ سے قربانی واجب ہو گی اور اگر ایسا نہیں اور دوسرا کوئی مال بھی نہیں تو قربانی واجب نہیں ہو گی۔
کافروں کو بلا اجرت قربانی کا گوشت دینا جائز ہے، البتہ غریب مسلمانوں کو دینے کا ثواب زیادہ ہے، کیونکہ یہ مستحب ہے، اس لئے قربانی کا گوشت مسلمانوں کو دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کوئی واقعی مصلحت ہو تو غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں، مگر بہتر نہیں ہے، کیونکہ مسلمانوں میں غرباء کی کمی نہیں ہے۔ قربانی کا گوشت جمعدار کو دینا جائز ہے۔
جس جانور کے پیدائشی ہی سے کان نہیں ہیں، اس کی قربانی درست نہیں، یا کان تو ہیں، مگر کسی کان کا تہائی حصہ یا زیادہ کٹ گیا ہو تو اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے اور اگر پیدائش سے کان تو ہیں، لیکن بالکل ذرا ذرا سے چھوٹے چھوٹے ہیں تو اس کی قربانی درست ہے۔ جس جانور کا کان لمبائی میں یا اس کے منہ کی طرف سے پھٹ جائے اور لٹکا ہوا ہو یا پیچھے کی طرف پھٹا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے، اگرچہ بہتر نہیں۔
اگر کوئی کافر ایام قربانی بلکہ بارہ تاریخ کے سورج غروب سے پہلے مسلمان ہو گیا اور وہ مالدار، صاحب نصاب ہے تو اس پر ایک حصہ قربانی کرنا واجب ہے اگر قربانی کا وقت باقی ہے ورنہ قربانی کا وقت گزر جانے کے بعد ایک اوسط درجے بکرے کی قیمت صدقہ کر دینا لازم ہوگا۔
جانور کے کپورے کھانا مکروہ تحریمی ہے اور غیر مذبوحہ جانور کے خصیے حرام ہیں۔
اگر ایسے آدمی کے پاس کتب خانہ (لائبریری) ہے جو خود تعلیم یافتہ نہیں بلکہ دوسروں کے مطالعہ کے لئے کتابیں رکھی ہیں اور کتابوں کی قیمت نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو کتابوں کے مالک پر قربانی واجب ہو گی اور اگر ’’کتب خانہ‘‘ کا مالک خود تعلیم یافتہ ہے اور کتابیں مطالعہ کیلئے رکھی ہیں تو کتابوں کے مالک پر قربانی واجب نہیں ہو گی۔ اگر ’’کتب خانہ‘‘ کی کتابیں تجارت کیلئے ہیں اور کتابوں کی قیمت نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو اس پر قربانی واجب ہو گی۔
صاحب نصاب آدمی پر ایک ہی قربانی واجب ہوتی ہے، خواہ کتنا ہی بڑا مالدار ہو، خواہ کتنے ہی نصاب کا مالک ہو یا ایک آدمی پر ایک ہی حصہ قربانی کرنا لازم ہے۔ چاہے ایک بکرا یا بکری یا دنبہ یا بھیڑ سے قربانی کرے یا گائے، بھینس اور اونٹ میں سے ساتواں حصہ لے کر قربانی کرے دونوں صورتیں درست ہیں۔
حلال طریقے سے ذبح کیا ہوا کچا گوشت کھانا جائز ہے، پکانا حلال ہونے کی شرط نہیں ہے۔
اگر کرایہ پر دی ہوئی چیز کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو اس کی وجہ سے ایک حصہ قربانی کرنا واجب ہو گا۔ کیونکہ کرایہ پر دی ہوئی چیز جب تک کرایہ پر ہے حاجت اصلیہ سے زائد ہے۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment