نواب مرزا نے شاعری کو ذریعہ معاش بنانے کا فیصلہ کرلیا

نواب مرزا نے جھک جھک کر سلام کئے، عاصی اور اپنے میزبان سے رخصت لی اور وہاں سے اٹھ کر سیدھا ماں کی خدمت میں حاضر ہوا۔
’’اللہ بچے میاں آپ کا چہرہ تمتمایا ہوا ہے؟ نصیب دشمناں جی تو ماندہ نہیں؟‘‘۔ وزیر خانم گھبرا کر بولی۔
’’جی نہیں اماں جان‘‘۔ نواب مرزا نے ایک تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’میں سوچتا ہوں…‘‘ لیکن اسے فوراً ہی خیال آیا کہ ماں کی تنہائی یا بے کس ہونے کے بارے میں کچھ بھی کہوں گا کہ میں متفکر ہوں، آپ کا دکھ کیسے دور کروں، تو وہ فوراً برا مان جائیں گی۔ مربیانہ لہجے کا شائبہ بھی ہو تو وہ فوراً محسوس کر لیتی ہیں۔ لیکن نواب مرزا کو یہ بات صاف نظر آرہی تھی کہ تنہائی اور تنگی اوقات دونوں ہی اس کی ماں کے لئے مقدر ہو چکے تھے۔ خرچ کم کرتے کرتے وزیر نے اب گھر کے کاموں میں بھی حبیبہ کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا تھا۔ منجھلی کے رامپور چلے جانے کے بعد وزیر کا باہر آنا جانا تو یوں ہی نہ ہونے کے برابر تھا، اب عمدہ خانم جب دہلی آتیں بھی، اور کبھی کبھی وہ کئی مہینے قیام کے لیے آتیں، تو وہ خود ہی وزیر کے گھر چلی آتیں کہ وزیر کو پالکی سواری اور آنے جانے کے لئے اچھے کپڑوں کا انتظام نہ کرنا پڑے۔ نواب شہید کے مزار پر بھی وزیر کی حاضری اسی لئے بہت شاذ ہوگئی تھی کہ قدم شریف تک بھی پالکی کہاروں کا انتظام اور وہاں کے حاجت مندوں کو کچھ دینے دلانے کا انصرام اس پر گراں ہونے لگا تھا۔
دوسری طرف، نواب مرزا پر یہ بات بالکل کھلی ہوئی تھی کہ مجھے شعر و سخن ہی کو اپنا فن بنانا اور شعر و سخن ہی کو اپنی معیشت کا سہارا بنانا ہے۔ ماں کی خدمت اور اس کے اسباب حیات کی تقصیر کو کم کرنا بھی اسی وقت ممکن تھا جب نواب مرزا خود بطور شاعر اس لائق ہوجائے کہ کوئی رئیس اسے اپنے یہاں نوکر رکھ لے۔ لیکن تمام ہونہار پن اور اولو العزمی کے باوجود وہ منزل ابھی نواب مرزا کے لئے دور تھی۔ اب وہ یا تو مشق شعر و شاعری کو ایک حد تک نظر انداز کرکے کسی رئیس کے یہاں کسی غیر شاعرانہ خدمت پر خود کو نوکر رکھوالے، یا پھر اپنے ساتھ اپنی ماں کو بھی تنگی ترشی میں رکھے۔ لیکن نوکری ملنا اتنا آسان بھی نہ تھا۔ اس کے شہید باپ کا کوئی ایسا پس ماندہ یہاں نہ تھا، جسے نواب مرزا اور وزیر سے کچھ قلبی ہمدردی ہو۔ افضل النسا بیگم اس کی بڑی ماں تو نواب مرزا اور وزیر خانم کے وجود ہی سے منکر ہونا بہتر سمجھتی تھیں کہ انہیں معلوم تھا کہ قانون فرنگ کی رو سے غیر منکوحہ عورت کا بیٹا بھی باپ کی املاک پر استحقاق رکھتا تھا۔ لہذا اگر نواب مرزا یا وزیر خانم کو کچھ بھی موقع قدم جمانے کا کہیں مل گیا تو ماں بیٹا نواب شہید کے ترکے پر کوئی دعویٰ بھی کر سکتے تھے۔ آخر ان لوگوں کا کوئی خاندان تھا نہ ذاتی امارت، نہ اسلاف سے ملی ہوئی ثروت۔ ایسے لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں، یہ ان کا خیال تھا۔ دوسری طرف یہ بھی بات تھی کہ یہ دہلی وہی دہلی تھی جہاں اس کی ماں کے بقول انگریز بہادر نے بزمانہ مقدمہ قتل ولیم فریزر اس کے باپ کے اعزاز ہی نہیں نوکر چاکروں تک کا بازاروں میں نکلنا بند کر دیا تھا۔ اور تب سے لے کر اب تک رعایا کے دلوں میں انگریز کی ہیبت اور بھی افزوں ہو چکی تھی۔ ایسے میں کس دہلوی رئیس کا بوتا تھا کہ وہ نواب شمس الدین احمد کے بیٹے، اور وہ بھی بغیر نکاح کئے ہونے والے بیٹے کو اپنے یہاں نوکر رکھے۔
تو بظاہر یہی راہ بہتر تھی کہ نواب مرزا بہ سرعت تمام خود کو شاعر کی حیثیت سے قائم اور مستحکم کر لے اور پھر کسی رئیس سے متوسل ہو کر اپنی ماں کے لئے اور اپنے لئے مناسب آذوقہ حیات کا بندوبست کرسکے۔
’’کس سوچ میں ڈوب گئے نواب مرزا، آپ کچھ کہہ رہے تھے‘‘۔ ماں کی آواز سن کر نواب مرزا اپنے خیالات پریشاں کے تنگ کوچوں سے باہر آیا، لیکن اس نے کچھ کہا نہیں، ایک لمحہ ماں کا منہ تکتا رہا۔
’’اے یہ کیا ہونقوں کے مانند منہ پھاڑے تک رہے ہیں میاں صاحب۔ کچھ تو کہیئے، کیا دل کو کوئی الجھن ہے؟‘‘۔ وزیر نے بیٹے کی بلائیں لیتے ہوئے کہا۔ پھر پکاری ’’اے بی حبیبہ، بچے میاں کے لئے کھانے کا بندوبست نہیں کر رہی ہوکیا؟‘‘۔
’’جی ہاں خانم صاحب، کھانا ہی لگوانے جا رہی تھی‘‘۔ حبیبہ نے پاس آکر نواب مرزا کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’جانی رام کو بازار بھیجا ہے روٹیوں کے لئے۔ بس وہ آجائے تو جھپا جھپ کھانا لگادوں گی۔ کیا بات ہے، آج میاں صاحب کی بھوک کچھ چمکی ہوئی ہے کیا؟‘‘۔
دلی کے اکثر متوسط گھرانوں کی طرح وزیر کے یہاں بھی اب روٹی باہر سے بروقت منگوالی جاتی تھی، صرف سالن گھر میں پکتا تھا۔ ’’جی، تو آپ کیا چاہتی ہیں، کم کھانا نہ کھایا کریں؟‘‘۔ نواب مرزا نے ہنس کر کہا۔
’’صاحبزادے، بات یہ ہے کہ نام خدا آپ ہیں شاعر، بلکہ استاد شاعر۔ اور شاعروں کو دیکھ کر بھوک بھاگ جاتی ہے‘‘۔ حبیبہ نے شرارت اور محبت بھرے لہجے میں کہا۔ فقرے کے دو معنی وزیر اور نواب مرزا دونوں پر عیاں تھے۔
وزیر مسکرا کر بولی ’’اے چلو ہٹو بھی حبیبہ، شاعر لوگ کیا بھوکھے رہے ہیں؟‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment